بارش کے بعد پھول نکھرتے ہیں اور جھومتے ہوئے درخت مست دکھائی دیتے ہیں، کہیں رنگ ہویدا ہوتے ہیں اور کہیں نغمے سنائی دیتے ہیں۔ تمام عالم دل کش اور من موہنی تصویروں سے آباد ہو جاتا ہے۔ شعر و ادب اور فن کی دنیا میں جب کچھ ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو قدرت کے جوبن کو اپنے فن کے پیرائے اور الفاظ کے حسن میں بیان کرتی ہیں تو یہ جہان رنگ و بو کچھ اور حسین ہو جاتا ہے۔ کل جن کے فن کی تازگی سے آباد تھا، آج بھی ان کا نام گونجتا ہے لیکن آج جن کے فن سے درخشاں ہے وہ اپنی روایت کے تسلسل کو اپنے انداز سے بیان کرتے ہیں۔ میر، غالب، اقبال، فیض احمد فیض، مجید امجد، منیر نیازی کا عہد بہت روشن اور مترنم تھا اور عہد حاضر ناصر بشیر جیسے صاحب اسلوب شاعروں کے رنگ سخن سے روشن اور آباد ہے۔
دیوار خستہ حال ہے اور در اداس ہے
جب سے کوئی گیا ہے مرا گھر اداس ہے
٭
تاابد جس کا نہ سایہ جائے
پیڑ ایسا بھی لگایا جائے
٭
منظر بدل گئے پس منظر بدل گئے
حالات اپنے شہر کے یکسر بدل گئے
سورج کے ڈوبنے پہ نہ حیراں ہوئے کبھی
اب سوچتے ہیں کتنے کیلنڈر بدل گئے
ناصر بشیر 6 اکتوبر 1968 کو بشیر احمد راٹھور کے ہاں اولیاء کرام کی سرزمین ملتان میں پیدا ہوئے۔ 1984 میں ملتان بورڈ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1986 میں ملتا بورڈ سے ہی ایف اے میں کامیابی حاصل کی۔ 1988 میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بی اے کیا۔ 1990 میں گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ فیصل آباد سے ایم اے اردو فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ تب یہ کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ملحق تھا۔ ایم اے کرنے کے 31 سال بعد انہوں نے 'حجاب علی امتیاز؛ غیر افسانوی تحریروں کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ' کے موضوع پر مقالہ لکھ کر منہاج یونیورسٹی لاہور سے ایم فل اردو کی ڈگری مع گولڈ میڈل حاصل کی اور یہ اتفاق کی بات ہے جب ناصر بشیر نے ایم فل میں داخلہ لیا تب وہیں خود ان کی ادبی خدمات پر ایک طالبہ تحقیقی مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے جا رہی تھی۔
آسٹریلیا کی مالی معاونت سے چلنے والے ایک بڑے ادارے 'اکاؤنٹبیلٹی لیب' نے انہیں 2021 کا 'انٹیگریٹی آئیکون' قرار دیا۔ یہ ادارہ ہر سال چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت سے 5 بہترین سرکاری ملازمین کو منتخب کرتا ہے اور اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں منعقد ہونے والی تقریب میں انہیں یہ اعزاز عطا کرتا ہے۔ ان کی پہلی تعیناتی 22 نومبر 1995کو بطور لیکچرار اردو گورنمنٹ کالج پتوکی ضلع قصور میں ہوئی۔ وہ گورنمنٹ کالج شیخوپورہ، گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور، گورنمنٹ کالج نارنگ منڈی ضلع شیخوپورہ، گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہورمیں بطور لیکچرار خدمات انجام دیتے رہے اور اسی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے۔ ان دنوں اسی کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدہ پر متمکن ہیں۔ طالب علموں کی حوصلہ افزائی ان کا اولین رویہ رہا ہے۔
ناصر بشیر کی تصنیفات میں ان کا پہلا مجموعہ غزل 'منظر بدل گئے' شائع ہوا۔ ان کے اس اولین شعری مجموعے کو ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس مجموعہ کی بعض غزلیں اور اشعار بے حد مقبول اور زبان زد عام ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد، عرش صدیقی، ظفر اقبال، خالد احمد، روحی کنجاہی اور عباس تابش کی آرا اس مجموعہ کلام پر درج ہیں اور ان کے رنگ سخن کے بارے میں اپنی خوبصورت رائے کا اظہار ہیں۔
کہاں ہیں خواب ہمارے؟ کہاں ہیں تعبیریں؟
سنائیں آپ کو ہم آپ ہی کی تقریریں
کل آپ کہتے تھے، عہدِ بہار آئے گا
پُر اضطرار دلوں کو قرار آئے گا
کل آپ کہتے تھے، زنجیر ٹوٹ جائے گی
صدائے نغمہء بلبل قفس میں آئے گی
وہی ہے رات، وہی رُت وہی اداسی ہے
خوشی ہے دور کہیں، زندگی خفا سی ہے
1955 میں ان کی کتاب 'شمس آغا کی کہانی' شائع ہوئی جس میں انہوں نے گم نام افسانہ نگار شمس آغا کے فن و شخصیت کو انتہائی شاندار پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ناصر بشیر کا عمرے کا سفرنامہ 2016 میں 'پہلی پیشی' کے نام سے شائع ہوا۔ اس عنوان کو اب تک شائع ہونے والے مقدس مقامات کے سفرناموں میں سب سے افضل اور منفر د عنوان قرار دیا جاتا ہے۔ 2018 میں سفرنامہ حج 'حج بیتی' منظر عام پر آیا۔
ناصر بشیر عہد حاضر کے ایک اہم شاعر تو ہیں اور انہیں اپنے ہم عصروں میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے جبکہ صحافت کے میدان میں بھی انہوں نے اپنی خدمات کا سلسلہ تاحال جاری رکھا ہوا ہے۔ مختلف جرائد کے مدیر ہونے کے سفر میں ان کا پڑاؤ روزنامہ پاکستان میں کالم نگاری ہے جو مجیب الرحمان شامی کی ان سے گہری رفاقت اوران کی شاعری کے ساتھ منفرد نثر کا بین ثبوت ہے۔ وہ آج کی صورت حالات پر ہر روز ایک غزل روزنامہ پاکستان کے لیے لکھتے ہیں۔ پنجاب کری کلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کی چوتھی جماعت کی 'اخلاقیات' میں ان کی دو نظمیں 'سچائی' اور 'ایمان داری' شامل ہیں۔ یہ کتاب غیر مسلم بچوں کو پڑھائی جاتی ہے۔
انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے لیے بے شمار گیت لکھے۔ انور رفیع اور حنا نصراللہ کا گایا ہوا کشمیر پر ان کا نغمہ بہت مشہور ہوا۔ انہیں پاکستان اور پاکستان سے باہر بہت سی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ نومبر 2000 میں ناروے تشریف لے گئے۔ 2004 میں عالمی پنجابی ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے انڈیا گئے۔
بدلے ہوئے حالات میں جینا نہیں آیا
عاشق کو گریبان بھی سینا نہیں آیا
پی کر بھی کیے جاتا ہے رِندوں کو ملامت
واعظ تجھے پینے کا قرینہ نہیں آیا
مے خانہ اگر بند ہوا، ٹھیک ہوا ہے
ساقی کو پلانا، ہمیں پینا نہیں آیا
پھر ملبے کی تقسیم پہ ہوتا رہا جھگڑا
جب ہاتھ کسی کے بھی دفینہ نہیں آیا
پاتال میں اترا کبھی پہنچا میں فلک پر
رستے میں اگرچہ کوئی زینہ نہیں آیا
دیتا ہے سزا آپ ہی الزام لگا کر
منصف کو عدالت کا قرینہ نہیں آیا
ناصر تجھے ساقی سے تعلق کا تھا دعویٰ
کیوں ہاتھ ترے ساغر و مینا نہیں آیا
ناصر بشیر لاہورکی ادبی و ثقافتی دنیا کی سب سے زیادہ متحرک شخصیت کا نام ہے۔ وہ مکالمے کے آدمی ہیں۔ ان کے ہاں نرم گوئی اور شگفتگی سب سے نمایاں ہوتی ہے۔ وہ اپنے طلبہ کے کندھے پر دست شفقت رکھ کر انہیں علم کے حصول کی جانب راغب کرتے ہیں۔ مجھے بسا اوقات وہ طالب علموں میں گھرے ہوئے خود بھی ایک طالب علم دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے کو کسی سے جد ا کر کے نہیں دیکھا۔ مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ وہ کسی کی مشکل گھڑی میں فوراً اس کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور جب تک وہ مسئلہ حل نہ ہو چین سے نہیں بیٹھتے۔
آج سرحد کے اس جانب جاوید اختر اور گلزار کے گیتوں کا منفرد انداز جس طرح نئی شاعری اور نئے حرف سخن کی پہچان ہے اسی طرح پاکستان میں ناصر بشیر کی شاعری آج کے پاکستانی ادب اور شاعری کی سب سے بڑی اور منفرد مثال ہے۔ وہ بلاشبہ آسمان سخن کا سب سے روشن ستارہ ہے جس کی روشنی میں نئے راستے آباد ہوں گے۔