پاکستانی معیشت کی صورتحال: 'اگلے چند ماہ میں 6 لاکھ لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے'

پاکستانی معیشت کی صورتحال: 'اگلے چند ماہ میں 6 لاکھ لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے'
پاکستان میں اس وقت کرونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاون سے ہونے والے معاشی نقصان اور غریب دیہاڑی دار طبقے کو ریلیف پیکج کے حوالے سے بحث عام ہے۔ اس حوالے سے اب سابق وزیر خزانہ ڈاکٹرحفیظ پاشا کے پاکستانی معیشت اور موجودہ صورتحال میں حکومت کے آپشنز کے حوالے سے چشم کشا تجزیہ سامنے آیا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے سما ٹی وی کے ہروگرام سوال کی میزبان عنبر رحیم شمسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ملک میں اگلے چند ماہ میں 6 لاکھ لوگ بے روز گار ہوں گے جبکہ دو کروڑ لوگ  خط غربت سے نیچے دھکیل دیئے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ منفی گروتھ ریٹ کا تجربہ شاید پاکستان کو اپنی تاریخ میں آخری بار 1951، 52 میں ہوا تھا۔ احساس پروگرام کا دائرہ کار مزید وسیع کرنا پڑے گا کیونکہ کچھ ہی عرصہ میں ملک میں بھوک پڑنے کا خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لئے اعلان کردہ 1.4 ارب ڈالر کی امداد کا مطلب ہے کہ پاکستانی حکومت کے پاس غریب دیہاڑی دار طبقے کو ایک مکمل ریلیف پیکج دینے کے لئے کافی گنجائش بن چکی ہے۔ جبکہ  وفاقی بجٹ میں قرضوں کی 4 سے 5 فیصد کی کم شرح سود پر ادائیگی سمیت دیگر سمتوں سے حکومت کو 1000 ارب تک کا ریلیف ملے گا اس لئے ریلیف پیکج کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ وزیر اعظم کا معیشت بچانے پر زور ہے اور وزیر اعلی' سندھ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ انسان بچائے جائیں کہ معیشت زندہ ہو سکتی ہے نہ کہ انسان تو ان دونوں میں سے کون صحیح ہے؟ سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک اس وقت تمام توانائیاں انسانی جانیں بچانے پر صرف ہونی چاہئیں۔ انکا کہنا تھا اب حکومتی خزانے میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ عوام کو لاک ڈاون میں اتنی سہولت پہنچا دے کہ ان پر لاک ڈاون بہت گراں نہ گزرے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ معیشت کی خرابی کا ذمہ دار صرف کرونا وائرس نہیں ہے اس سے قبل بھی پاکستانی معیشت کو بھاگ نہیں لگے ہوئے تھے۔ تب بھی معیشت کمزور تھی تاہم اب تو اس کے بگاڑ میں بہت اضافہ ہو چکا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ مزید ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ دعوی' کہ وہ ریلیف پیکج کے تحت 1250 ارب روپیہ خرچ کر رہے ہیں آئی ایم ایف اسے نہیں مانتی۔ آئی ایم ایف کے مطابق یہ کل 500 ارب کا پیکج ہے کیونکہ باقی رقم تو وہ ظاہر کی گئی ہے جو اس سے پہلے بجٹ کا حصہ ہی تھی۔ اس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 144 ارب جبکہ 244 ارب روپے گندم کی خریداری کے مختص کردہ ہیں جن کو صوبوں نے خرچ کرنا ہے نہ کے وفاق نے۔انہوں نے کہا کہ ہاٹ منی کو بلند شرح سود رکھ کر ملکی خزانے میں لانے کی پالیسی غلط تھی۔ کرونا کے ایک جھٹکے نے ٹریژری بلز میں سے 80 فیصدسرمایہ کاری نکلوا دی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا گزشتہ پروگرام معطل ہونے کی وجہ سے اب شاید حکومت کو 500 ارب ڈالر ہی مل سکیں گے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق موجودہ صورتحال خطرناک حد تک خراب ہے اور اس سے نمٹنے کے تین طریقے ہیں۔ حکومت ان دیہاڑی دار افراد تک رقم براہ راست پہنچائے جو کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے اس کے لئے 200 ارب روپے مختص کیئے جائیں۔ حکومت درمیانے اور چھوٹے کاروباری طبقے کو براہراست ریلیف دے تاکہ وہ لوگوں کو نوکریوں سے نہ نکالیں اور احساس پروگرام کو 1 کروڑ بیس لاکھ خاندانوں سے بڑھا دیا جائے۔ جبکہ پیسے 4 ماہ کے وقفے کی بجائے ڈیڑھ سے دو ماہ میں تقسیم کیئے جائیں۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضہ کرتے ہیں جن کو لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔ جبکہ 2023 الیکشن کے بعد  آنے والی اگلی حکومت کو پی ٹی آئی حکومت سے زیادہ بری معیشت ترکے میں ملے گی۔