معاشی ماہر خرم حسین نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام پر چڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ دوست ممالک کے جانب سے ملنے والی امداد بھی تب ہی ملے گی جب ہم آئی ایم ایف کیساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
خرم حسین کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک سال سے آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کی کوشش ہو رہی ہے۔ اب جلد ہی یہ مذاکرات شروع ہونے والے ہیں۔ اس میں اگر پاکستان کو کامیابی حاصل نہ ہوئی تو ملک کے معاشی حالات میں مزید بگاڑ کا خدشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی جبکہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ہوگا، پیٹرول کی قیمتوں میں جو اضافہ کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے پچھلے 25 سالوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوگا۔ اس سائز کو چمپ دیکھیں تو اس جگہ پر آتے آتے آٹھ مہینے لگیں گے۔ اگر مذاکرات میں آئی ایم ایف کیساتھ پھر یہ بات نکلے کہ ابھی فی الحال پروگرام کی بحالی نہیں ہو رہی تو غیر یقینی صورتحال مزید بڑھے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ دبائو میں آئی نہ عمران خان کے مطالبات پر جلد الیکشن ہونگے، چند جلسوں سے پالیسی تبدیل نہیں ہوگی
دوسری جانب سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ صرف دن کے اندر اسٹیبلمشنٹ اپنی پالیسی تبدیل کرلے۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ اسٹیبلمشنٹ عمران خان کے دبائو میں آکر الیکشن کرانا چاہتی ہے۔
یہ اپنا سیاسی تجزیہ انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ”خبر سے آگے” میں گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی اشارے دکھائی نہیں دے رہے کہ ملک الیکشن کی طرف جا رہا ہے۔ نئے الیکشن آئندہ سال ہی ہونگے۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے مطالبات پر الیکشن نہیں ہو سکتے۔ بہت سے تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے دبائو میں آ چکی ہے اور اس لئے وہ انتخابات کرانا چاہتی ہے۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کیا موم کی گڑیا ہے کہ جس نے دبائو ڈالا اس طرف مڑ جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ اپنے مفاد کے تحت فیصلے کرتی ہے۔ اسٹیبشلمنٹ نے عمران خان کو اپنے مفاد میں نکالا جبکہ نواز شریف سے صلح اپنے مفاد میں کی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایسا نہیں کرے گی کہ چند دنوں میں اپنی رائے بدل دے اور کہے کہ چونکہ حکومت نہیں چل رہی اس لئے نئے انتخابات کا انعقاد کرا دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی حکومت کو پتہ تھا کہ ملک کے معاشی حالات کیا ہیں۔ عمران خان کے چند جلسوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا نئے انتخابات کا انعقاد مسلم لیگ ن کے حق میں ہے؟ کیونکہ ابھی تو نواز شریف نے پاکستان واپس آنا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ لندن میں بیٹھ کر الیکشن کال کر دیں۔ اس کے علاوہ کیا پیپلز پارٹی بھی ایسا کرنا چاہتی ہے تو اس کا جواب بھی ناں میں ہے کیونکہ انہں نے ابھی تو اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ بنایا ہے۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں پہلے آئی ایم ایف کیساتھ ڈیل ہوگی، جون میں بھاری ادائیگیاں ہونی ہیں، ڈیفالٹ سے بچیں گے، اس کے بعد ہی تمام جماعتیں الیکشن میں جانے کیلئے تیار ہونگی۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران خان کو گرفتار کرنے کا کیا اختیار ہے؟ یہ اختیار حکومت کے پاس ہے۔ اس کام کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا تعاون یا اخلاقی مدد کی ضرورت تو پیش آ سکتی ہے لیکن یہ کام کرنا حکومت نے ہی ہے۔