صدر مملکت نے رواں برس 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر 184 ملکی اور غیر ملکی شخصیات کے لیے سول ایوارڈز کا اعلان کیا تھا جنہیں 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر منعقد کی جانے والے تقریب میں ایوارڈز سے نوازا جائے گا۔
تمغہ حسن کارکردگی حکومت پاکستان کی طرف سے ایک شہری اعزاز ہے جو پاکستان میں ادب، فنون، کھیل، طب، سائنس اور دیگر شعبوں میں اعلی کاردکرگی دکھانے والوں کو سال میں ایک دفعہ دیا جاتا ہے، صدر پاکستان نے اس سال جن شخصیات کو سول ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے ان میں گلوکار علی ظفر بھی شامل ہیں۔ علی ظفر نے حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کے لیے نامزدگی پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا اور نامزدگی کو بہت بڑا اعزاز قرار دیا تھا۔
Deeply honoured to be awarded with the “Pride of Performance” award by by the Govt of Pakistan. I bow down in humility & gratitude to God, forever indebted to my fans and supporters. ??❤️? #PakistanZindabaad #PakistanIndependenceDay pic.twitter.com/rV1wx3BZCl
— Ali Zafar (@AliZafarsays) August 14, 2020
جس کے چند روز بعد اداکارہ عفت عمر نے سول ایوارڈز کی نامزدگی سے متعلق ایک تنقیدی ٹوئٹ کی تھی لیکن کسی کا نام نہیں لیا تھا۔ عفت عمر نے لکھا تھا کہ صرف پاکستان میں یہ ممکن ہے کہ حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر ہراسانی میں ملوث شخص کو ایوارڈ دیا جائے۔
Only in Pakistan an alleged Harraser gets an award backed by the Govt.Nowhere else in 21st cen. #PakistanZindabad
— Iffat Omar Official (@OmarIffat) August 16, 2020
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ کس شخص کے حوالے سے بات کررہی ہیں تاہم لوگوں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ عفت عمر گلوکار علی ظفر کے بارے میں بات کررہی ہیں۔
اب عورت مارچ، عورت آزادی مارچ، ویمن ایکشن فورم اور تحریک نسواں کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ہم پاکستانی معاشرے کو مزید مساوی بنانے کے لیے کام کررہے ہیں کہ جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی خواتین کو انصاف فراہم کیا جائے اور کام کی جگہ پر تشدد کا خاتمہ اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ہمارا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت تمام سیاسی اداروں اور مشینری میں برابری اور انصاف کو شامل کرنے کے مینڈیٹ پر کام کررہی ہے اور پاکستانی خواتین، ٹرانس ویمن اور دیگر پسماندہ طبقات کے تحفظ ان کا خصوصی فرض ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ صدارتی دفتر کی جانب سے علی ظفر کو تمغہ حسن کارکردگی دینے کے فیصلے پر ہمیں شدید تشویش ہے کیونکہ علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد ہیں اور اس حوالے سے مقدمات تاحال جاری ہیں۔ ہم اس تمغے کی میراث کو داغدار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ قصوروار ثابت ہونے تک ہر شخص بے گناہ ہوتا ہے لیکن علی ظفر کے خلاف سپریم کورٹ میں ہراسانی سے متعلق ایک اپیل زیر التوا ہے اور ہتک عزت کا ایک مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ لاہور میں زیر التوا ہے جبکہ اس دوران یہ اعزاز دیے جانے کا وقت انتہائی پریشان کن اور بے حسی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ پریشان کن اس لیے ہے کیونکہ اس سے تاثر جاتا ہے کہ ریاست پاکستان نادانستہ طور پر زیر التوا فیصلوں سے قطع نظر جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے شخص کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ بے حس اس لیے ہے کہ متعدد خواتین کی گواہیوں کے مخالف ہے اور ایک ایسی ثقافت کو فروغ دیتا ہے جہاں جنسی مس کنڈکٹ کو سنجیدہ نہیں لیاجاتا۔
خط میں رواں برس کے انتخاب پر نظرثانی پر زور دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اسے اس وقت تک کے لیے ملتوی کردیا جائے جب تک نامزد کردہ شخص کے خلاف الزام سے متعلق تمام قانونی معاملات مکمل نہیں ہوجاتے۔ ساتھ ہی وزیراعظم سے ملازمت کی جگہوں کو ہراسانی سے پاک بنانے پر غور کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ درخواست کی گئی کہ ان معاملات پر فوری طور پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ حکومت پاکستان کے دفاتر کو امتیازی نظاموں، علامات، معیار سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔
Feminists across Pakistan condemn the recent decision to award the Pride of Performance to Ali Zafar; an alleged harasser.
We urge the state to reconsider this year's selection pic.twitter.com/d9u4F991Oc
— Aurat Azadi March Islamabad (@AuratAzadiMarch) August 19, 2020