پاکستان کی موجودہ حکومت کا درد سر آج کل خارجہ محاذ ہے۔ خطے میں تیزی سے تبدیلی ہو رہی ہے۔ اور گلوبل آرڈر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بھارت نے کشمیر پر تاریخ کا سب سے جارحانہ قدم اٹھایا ہے۔ اور عرب ممالک بھارت کی کھل کر مخالفت کرنے سے گریزاں ہیں تو ساتھ ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے شوقین بھی۔
ایسے میں پاکستانی حکومت کے وزیر خارجہ اپنے ہی بیانات کی وجہ سے سعودی عرب کو ناراض کر بیٹھے ہیں۔
یہ تمام صورتحال کب اور کیسے تشکیل پائی اور ایسی کیا غلطیاں تھیں جو پاکستان نے خارجہ محاذ پر کیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ کہ بھارت اور کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو ایسا کیا کرنا چاہئے تھا جو کہ اسے بھارتی اقدام کا موثر جواب دینے کی پوزیشن میں لاتا؟۔ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں گونجتے ہیں۔
انہی سوالات کے جوابات نیا دور ٹی وی کے پروگرام خبر سے آگے میں پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی اور رضا رومی نے پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے پوچھے جن کے انہوں نے سیر حاصل جوابات دیئے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے کشمیر پر نہ ہی بھارت کی داخلی صورتحال کو سمجھا نہ ہی پالیسی کو اس طرح سے استوار کیا۔ پہلے آتے ہی وزیر اعظم عمران خان نے مودی کی الیکشن کی جیت کی دعائیں کیں۔ پھر ٹرمپ سے ثالثی کے بیانات دلوائے۔ عمران حکومت کی جانب سے صورتحال کی غلط سمجھ کی وجہ سے اٹھائے گئے غلط خارجہ اقدامات نے ایسا ماحول بنادیا جس کی مدد پاتے ہوئے مودی نے کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کا اقدام جلد اٹھا لیا جس کی جانب شاید وہ کچھ اور دیر سے آتا۔
حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ 9 اگست 2019 کو جب بھارت نے کشمیر کواپنا حصہ بنایا اس وقت پاکستان کے پاس بہت سے آپشنز موجود تھے۔ اسکو فوری طور پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجالس بلانا چاہئے تھا جو کہ پاکستان کی سکت اور پہنچ میں تھا۔
لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے درست وقت کو خالی جانے دیا اب یہ دوستوں کو گلے دے کر انہیں اپنا دشمن بنا رہے ہیں۔
حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ حکومت مسلسل کنفیوزڈ نظر آئی ہے۔ کبھی یہ ادھر جاتے ہیں تو کبھی ادھر، یہ صورتحال صحیح طریقے سے سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی انہوں نے درست وقت پر درست ایکشن لینے کی زحمت کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمان کی کمیٹی برائے خارجہ امور میں بار بار کہتے رہے کہ اس پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس بلائیں لیکن نہیں بلایا گیا۔ پھر آپ ترکی اور ایران کی طرف چلے گئے اور پھر آپ اچانک سعودی عرب کے کہنے پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سعودی عرب چلے گئے۔ کاروبار میں بھی الفاظ کی بڑی قدر ہوتی ہے یہ تو پھر ریاستی معاملات تھے۔ ایک حکومت کی جانب سے یہ کچھ ہو تو اس سے دوبارہ کون بات کرے گا؟ ایران، ترکی اور ملائنشیا کیا کچھ سوچتے ہوں گے؟
میزبان رضا رومی کے چین اور امریکا کے مقابلے کے درمیان پاکستان کی جگہ کے حوالے سے سوال پرانکا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنا باریک توازن قائم کرنا ہوگا اور یہ کام بہت ہی اًحتیاط اور باریکی کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جو طاقتیں ورلڈ آرڈز بنانے والی تھیں وہ اسے توڑنے کی بات کر رہی ہیں اور جو اس کے براہ راست شریک نہیں تھے وہ اسے سنبھالنے کی بات کر رہے ہیں یہ دلچسپ ہے اور خارجہ محاذ پر ایک فہم و فراست اور تدبرانہ فیصلوں کا تقاضہ کرتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وہ وزیر خارجہ رہی ہیں اور سلالہ پر انہوں نے امریکا کا دباؤ برداشت کیا لیکن اپنی ہی منوائی۔ یہ حکومت امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتوں سے بہت کچھ منوا سکتی تھی جس کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔