پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے مابین معاملات 2018 کے الیکشن سے پہلے ہی طے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اس وقت تحریک انصاف ہیئت مقتدرہ کی پسندیدہ سیاست کر رہی تھی اور مسلم لیگ (ق) تو ہمیشہ سے ہی ہیئت مقتدرہ کی پسندیدہ رہی ہے۔ تب عمران خان پرویز الہٰی سے زیادہ چودھری شجاعت حسین کے نزدیک تھے اور مونس الہیٰ کے بحائے چودھری شجاعت حسین کے بیٹے سالک حسین کو اپنی کابینہ میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ چودھری پرویز الہیٰ کو انہوں نے پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنایا تھا کیونکہ وہ مسلم لیگ قاف کے 10 اراکین اسمبلی کے بغیر پنجاب میں حکومت سازی نہیں کر سکتے تھے۔
خیر وقت گزرتا گیا۔ عمران خان حکومت کے خلاف مبینہ طور پر آپریشن رجیم چینج ہوا۔ ان کی حکومت ختم ہو گئی۔ وطن عزیز میں کبھی بھی حکومت کی تبدیلی ہیئت مقتدرہ کی آشیر باد کے بغیر نہیں ہو سکتی اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں انکل سام آپریشن رجیم چینج کرتا رہتا ہے۔ یہ سب ریکارڈ پر ہے۔
مسلم لیگ قاف مرکز میں چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں مکس اچار حکمران اتحاد کا حصہ بن گئی مگر پنجاب میں مونس الہیٰ اپنے والد پرویز الہیٰ کو منانے میں کامیاب رہے کہ عمران خان اپنے بیانیے کے باعث اس وقت پاکستان کا سب سے مقبول ترین سیاست دان بن گیا ہے۔ ثبوت کے طور پر 25 مئی کے پنجاب میں ہونے والے 20 سٹیوں کے ضمنی انتخابات ہوں یا قومی اسمبلی کی 9 سیٹوں کے ضمنی انتخابات ہوں جہاں عمران خان نے 9 میں سے 8 پر الیکشن جیت کر قومی سیاسی تاریخ میں ایک نیا سنگ میل قائم کر دیا جس کو عبور کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
اگر چودھری پرویز الہیٰ کی سیاست کا مطالعہ کریں تو ان کی سیاست 1989 کے بلدیاتی انتخابات سے شروع ہوتی ہے جہاں انہوں نے گجرات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ پھر جنرل جیلانی نے چودھری برادران اور شریف برادران کو اپنی چھتر چھایا میں لیا۔ پھر جنرل مشرف کے دور میں چودھری برادران کا عروج تھا۔ اس خاندان نے کبھی بھی ہیئت مقتدرہ کے خلاف سیاست نہیں کی بلکہ سیاسی میدان میں ہمشہ پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے۔ ہمیشہ سیاست کرنے سے پہلے ہیئت مقتدرہ سے مشورہ کیا ہے۔
دوسری طرف کپتان کی سیاست شروع کرانے میں مبینہ طور پر جنرل مجیب کا کردار بھی نظر آتا ہے۔ مشرف کی انہوں نے شروع میں حمایت کی مگر بعد میں ان کے بہت بڑے مخالف بن کر ابھرے حتیٰ کہ جیل بھی گئے۔ بعد ازاں جنرل پاشا اور جنرل باجوہ سے ان کے معاملات بہتر ہوئے کیونکہ بہرحال وہ یہ بات سمجھ گئے تھے کہ اقتدار میں آنے کے لیے ہیئت مقتدرہ کا تعاون ضروری ہے۔ مگر کپتان چونکہ فطری طور پر سرکش ہے، زیادہ دیر تک ہیئت مقتدرہ کے اشاروں پر نہیں چل سکتا لہٰذا اقتدار میں آنے کے بعد چچا سام والی پالیسی پر ان کے اختلافات شروع ہو گئے۔
ہماری ہیئت مقتدرہ 75 سالوں سے چچا سام کے ساتھ چل رہی ہے۔ اس لیے ان کو وہ وزیر اعظم پسند نہیں جو چچا سام کے سنگ نہ چل سکے یوں کپتان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ اس وقت کپتان پاکستان کا سب سے مقبول ترین سیاست دان ہے کیونکہ اس کا چچا سام مخالف بیانیہ عوام میں پاپولر ہو چکا ہے۔ اوپر سے مکس اچار حکمران اتحاد نام نہاد تجربہ کاروں کی حکومت مہنگائی کا طوفان لے کر آئی ہے۔ اس نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔
عام طور پر تاثر یہ تھا کہ کپتان کے جنرل باجوہ والے بیانیے کو تحریک انصاف کے پنجاب میں اتحادی وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہیٰ پسند نہیں کریں گے اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سے اجتناب کریں گے۔ جو وجوہات پرویز الہٰی نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو عارضی طور مؤخر کرنے کے حوالے سے دی تھیں وہ کافی حد تک ٹھیک بھی تھیں مگر کپتان چونکہ فطری طور پر دلیر ہے اس نے سیاسی جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا جو صرف کپتان ہی کر سکتا تھا مگر اس کے باوجود پرویز الہٰی نے کپتان کے ساتھ بیٹھ کر بڑے بھاری دل اور تحمل سے جنرل باجوہ پر تنقید کو سنا۔
میرے خیال سے کپتان کو اپنے اتحادی پرویز الہیٰ کو ساتھ بٹھا کر باجوہ پر تنقید نہیں کرنی چاہئیے تھی کیونکہ پرویز الہیٰ ان کے اتحادی ہیں، ان کی اپنی سیاست ہے اور وہ پہلے ہی اپنی سیاست کے برعکس ہیئت مقتدرہ مخالف سیاسی جماعت کے ساتھ چل رہے ہیں۔ پرویز الہٰی نے کپتان کے جنرل باجوہ مخالف بیانات سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ بہرحال اب انتظار 23 دسمبر کا ہے جس دن کپتان نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنی ہے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔