انسداد دہشت گردی کے ادارے کے وسائل اور تنخواہوں کے معاملے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خیبر پختونخوا میں انسداد دہشت گردی کا ادارہ دہشت گردی کی فرنٹ لائن پر ہے مگر اس ادارے کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ یہ انکشاف کیا ہے تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے۔
یوٹیوب پر اپنے تازہ وی لاگ میں صحافی اعزاز سید نے ساتھی صحافی عمر چیمہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹس کا موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ کے پی کے دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے۔ فوج اور پولیس سے بھی پہلے دہشت گردی کی فرنٹ لائن پہ سی ٹی ڈی آتا ہے۔
اعزاز سید کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے سی ٹی ڈی کو فنڈز فراہم نہیں کیے جس کی وجہ سے اچھی کارکردگی والا ادارہ زبوں حالی کا شکار ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے سی ٹی ڈی میں شہدا کے لیے 27 کروڑ کا فنڈ ہے جبکہ خیبر پختونخوا کے سی ٹی ڈی کے شہدا کا فنڈ صرف اڑھائی کروڑ روپے ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے سی ٹی ڈی اور خیبر پختونخوا کے سی ٹی ڈی کے ملازمین کی تنخواہوں میں 70 فیصد کا فرق ہے۔
اعزاز سید نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے سی ٹی ڈی میں ایک ایڈیشنل آئی جی اور دو ڈی آئی جی ہونے چاہئیں تھے جبکہ وہاں صرف ایک ایس ایس پی کو لگایا ہوا ہے جو کہ ڈی آئی جی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔