ایف آئ اے نے سی ایس ایس کے پرچے آوٹ کرنے کے الزام میں دو سرکاری افسران کو حراست میں لے لیا

ایف آئ اے نے سی ایس ایس کے پرچے آوٹ کرنے کے الزام میں دو سرکاری افسران کو حراست میں لے لیا
یہ تحریر نتاشہ بادھوار نے ایک بھارتی ترقی پسند ویب سائٹ کے لئے لکھی ہے، جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے

میرے خاندان میں گذشتہ ہفتے ایک موت واقع ہو گئی۔ ایک محبت کرنے والے چچا، جو ایک چھوٹے بھائی تھے، ایک والد ایک شوہر، ایک ایسے آدمی تھے جنہوں نے ہمیشہ مجھے ہنسایا اور جن سے ہمیشہ مجھے پیار ملا۔ وہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے۔ جیسے ہی ان کی وفات کی خبر آئی میں اس وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف رونا چاہتی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے بدن میں کچھ پھنس گیا ہے جس کا میں اظہار کرنا چاہتی تھی۔ شاید چیخ مارنا چاہتی تھی۔ میں سب کچھ روک دینا چاہتی تھی اور اس جگہ پہنچنا چاہتی تھی جہاں میرے چچا کا جسد خاکی موجود تھا۔ میری خواہش تھی کہ دنیا اس وقت تھم جائے اور اس سوگ کو منائے۔

پھر مجھے اپنے بچوں کو یہ خبر سنانا پڑی جو میرے نزدیک ہی تھے۔ پہلے میں نے انہیں بتایا کہ ہوا کیا ہے۔ میری آواز یہ بتاتے وقت سرگوشی کی مانند مدہم تھی۔ ہر بچے نے اس خبر پر انفرادی ردعمل دیا۔ ایک نے اپنی مٹھیوں کو بھینچ لیا، ایک افسردہ دکھائی دیا، اور ایک خاموش اور سن ہو گیا۔ مجھے لگا کہ مجھے ان سے بات کرنی چاہیے۔ میں نے کہا، "کوئی بات نہیں۔ انہوں نے اچھی زندگی بسر کی۔ وہ اچھے طریقے سے جیے۔ وہ بیمار تھے اور ان کے جانے کا یہ وقت تھا۔ جیسے بچوں کے جنم کا وقت ہوتا ہے۔ معمر لوگوں کو مرنا ہوتا ہے۔ وہ اب سکون میں ہیں"۔

اپنے بچے کو سمجھائیے کہ کیوں بھارتی لوگوں کو بہترین زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے جبکہ پاکستانی جو ہمارے جیسے دکھتے ہیں ہماری مانند محسوس کرتے ہیں، ہماری طرح خوشی اور غمی مناتے ہیں ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔

میرے کہے گئے الفاظ کے باعث خود میری ذات پر ان کا پرسکون اثر ہوا جس کی مجھے امید نہیں تھی۔ میری اپنی تکلیف کم ہو گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ میں پرسکون ہو سکتی ہوں۔ میرے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ اپنے دکھ کو خارجی صورت دینا ضروری نہیں۔ میرا ان لوگوں کو مشورہ ہے جو سی آر پی ایف کے جوانوں پر پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بدلے میں کشمیری مسلمانوں اور پاکستانیوں کا خون بہتا دیکھنا چاہتے ہیں، جن کا دکھ اور غم انہیں بدلہ لینے کے ردعمل پر مجبور کرتا ہے جو دوسرے غیر متعلقہ لوگوں کو زخم دے کر اپنی تکلیف کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جن کا غصہ اچانک بیدار ہو جاتا ہے اور تشدد کا متقاضی ہوتا ہے کہ

آپ اس بچے کو سمجھانے کی کوشش کریں جس سے آپ پیار کرتے ہیں۔

اپنے پوتے کو سمجھائیے کہ کیسے پاکستان کے خلاف جنگ مزید فوجیوں کی اموات کا باعث بنے گی اور کیسے سی آر پی ایف کے پہلے سے شہید اہلکاروں کی بیواؤں اور یتیم بچوں کو فائدہ پہنچا سکے گی؟ سمجھائیے کہ ماضی میں ہوئی جنگیں (طویل المدت، تھوڑے وقت کیلئے، محدود، ایٹمی) جو بھارت اور پاکستان کے بیچ یا دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان لڑی گئیں، کیسے ان میں ملوث کسی ایک بھی ملک میں امن کا قیام لانے میں کامیاب ہوئیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو 20 ویں صدی کی حقیقت معلوم ہو گی۔

میری ٹائم لائن پر موجود ایک معتبر شخصیت چاہتی ہے کہ کوئی بھی بھارتی پاکستانی کپڑے نہ زیب تن کرے اور نہ ہی پاکستانی مصنفین کو پڑھے۔ اس کی ایک دوست نے اسے یقین دلوایا کہ اس نے پاکستانی ڈرامے دیکھنے بند کر دیے ہیں۔ ایک چھوٹے سے بچے کو سمجھائیے کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ پاکستانی مصنف دراصل دہشت گرد تنظیموں سے منسلک ہیں اور کیسے ان کی کتب کی فروخت بھارتی لوگوں پر حملے کی وجہ بنی۔ وضاحت دیجئے کہ کیسے پاکستان کو بھیجے جانے والی برآمدات کو بند کر کے بھارت چھوٹے تاجروں کا نقصان کرے گا، سرحد پر سمگلنگ میں اضافہ ہو گا اور اس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات رونما ہوں گے کہ دہشت گردوں کے تمام تربیتی کیمپ تباہ ہو جائیں گے۔ یا انہیں وقتی طور پر ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اپنے بچے کو سمجھائیے کہ کیسے بھارتی لوگوں کو بہترین زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے جبکہ پاکستانی جو ہمارے جیسے دکھتے ہیں ہماری مانند محسوس کرتے ہیں، ہماری طرح خوشی اور غمی مناتے ہیں ان کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ جب کہ آپ یہ کام کر رہے ہیں تو اپنے کسی قریبی فرد کو بتائیے کہ 1947، 1984 اور 2002 میں کیا ہوا تھا اور کیسے بھارت کے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں (دہرہ دون، امبالا وغیرہ) کشمیری مسلمان طلبہ پر حملوں کے باعث ان متنفر کشمیری شہریوں کے دل اور دماغ میں ڈرامائی تبدیلی آئی جو گذشتہ چند دہائیوں سے تشدد اور بے عزتی کے سائے تلے اپنی روزمرہ زندگی بتا رہے تھے۔

سمجھائیے کہ آپ میں اور بجرنگ دل کے ان آدمیوں میں کیا چیز مشترک ہے جو مسلمان لڑکیوں کو ان کے ہوسٹلوں میں ڈرا دھمکا رہے ہیں اور انہیں سی آر پی ایف کے جوانوں کی موت کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اپنے دس سالہ بیٹے یا بھتیجے کی حوصلہ افزائی کیجئے کہ وہ بڑا ہو کر خون کے پیاسے جتھوں میں شمولیت اختیار کرے تا کہ ہندو قوم کی خدمت کر سکے۔

جائیے اور جن بچوں سے آپ پیار کرتے ہیں ان کے چہرے دیکھئے اور اپنی بے بس غصے کی کیفیت اور شدید تکلیف کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کا سہارا لیجئے۔ شاید ایسا کرنے سے آپ کے دل میں تھوڑی سی عقلیت آپ کو مل جائے۔

شاید آپ ان بچوں کی معصومیت کو تحفظ دینا چاہیں گے۔ یا شاید ان کی معصومیت آپ کو تحفظ فراہم کرے گی۔

(نتاشا بادھوار ایک فلم میکر، میڈیا ٹرینر اور دو کتابوں "مائی ڈاٹرز مم" اور "ایمورٹل فار آ مومنٹ" کی مصنفہ ہیں)