Get Alerts

مبینہ انتخابی دھاندلی: چیف الیکشن کمشنرکیخلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ

سینیٹر مشتاق احمد نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن معافی مانگے۔ چیف الیکشن کمشنرمستعفی ہوں۔وہ شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہے۔شفاف انتخابات کا انعقاد نہ کروا کر الیکشن کمیشن غداری کا مرتکب ہوا ہے۔چیف الیکشن کمشنر کے خلاف آئین شکنی کے آرٹیکل 6کےتحت کارروائی کی جائے ۔

مبینہ انتخابی دھاندلی: چیف الیکشن کمشنرکیخلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ

سینیٹر مشتاق احمد اور سینیٹر طاہر بزنجو نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے ہوئےکہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوں۔ ان کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی۔جعلی الیکشن تھا اب جو بھی حکومت بنے گی وہ جعلی ہو گی۔الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن معافی مانگے۔ چیف الیکشن کمشنرمستعفی ہوں اور انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزا دی جائے۔وہ شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہے۔

انہوں نے کہا کہ شفاف انتخابات کا انعقاد نہ کروا کر الیکشن کمیشن غداری کا مرتکب ہوا ہے۔چیف الیکشن کمشنر کے خلاف آئین شکنی کے آرٹیکل 6کےتحت کارروائی کی جائے ۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ الیکشن میں ڈرگ مافیا اور افغان نیشنل کو جتوایا گیا۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے الیکشن کا کٹھا چٹھا کھول دیا۔الیکشن نے ملک کو عظیم تر معاشی اور سیاسی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کروانے والے قومی مجرم ہیں۔ الیکشن میں بلٹ نے بیلٹ کو اغوا کیا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن میں گولی نے پرچی کو اغوا کیا ہے۔ چند سرکاری نوکر بند دروازوں کے پیچھے عوام کے حق حکمران کو چھین کر لے گئے۔ چیف الیکشن کمشنر معافی مانگیں اور ان سے 50ارب وصولی کیا جائے ۔ الیکشن کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ انگریزوں سے آزادی اس لیے حاصل نہیں کی گئی کے چند سرکاری نوکر بند کمروں میں ہمیں غلام بنانے کے فیصلے کریں ۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ ملک کو بنے 75 برس ہو گئے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کا منہ ٹیڑھا ہے۔ ملک میں اختلاف کی گنجائش سکڑتی جا رہی ہے ۔ تاریخ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ خدارا کچھ سیکھو مگر کوئی سیکھنے کو تیار نہیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے آپ غلطیوں کو دہرا رہے ہیں ۔ نگرانوں کی نگرانی میں جو بھی انتخابات ہوئے وہ متنازع رہے ۔ اب کی بار انتخابات متنازع ترین رہے ۔

سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں چن چن کر حقیقی عوامی نمائندوں کو ہروایا گیا ۔ دو بڑی جماعتوں کے تعاون سے منشیات فروشوں، فیوڈل لارڈز کو اسمبلیوں تک پہنچایا گیا ۔ جب تک عدلیہ اور فوج اپنا اپنا کام نہیں کریں گے ملک بحرانوں کا شکار ہوتا جائے گا ۔ کیا عدلیہ کو حق تھا کہ وہ پی ٹی آئی کا نشان چھینے ۔ کیا ایسے دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا؟

انہوں نے کہا کہ میرا مطالبہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو گرفتار کر کے آئین شکنی کا مقدمہ چلایا جائے ۔ آخری اجلاس ہے آپ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں۔

دوسری جانب سینیٹ اجلاس میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کو اپوزیشن میں بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آپ آئیں اور اپوزیشن میں بیٹھیں۔ حزب اختلاف کا کردار حکومت سے کہیں زیادہ ہے۔ خیبر پختونخواہ ایک اچھا صوبہ ہے وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں۔ اس کے بعد بچا کچا پاکستان بھی لیں۔ ایوانوں میں نہیں آئیں گے تو دوبارہ الیکشن نوے دن میں ہونگے یا کچھ اور ہوگا مجھے نہیں پتا۔

سینیٹر عرفان صدیقی کاکہنا تھا کہ جب آپ مولانا فضل الرحمان کے گھر جاسکتے ہیں تو دوسرے جماعتوں کے ساتھ کیوں نہیں ملتے۔ مولانا فضل الرحمان کو آپ نے کن القابات سے نوازا۔ایک عالم دین کو رسوا کیا، آپ فرمان جاری کرتے ہیں کہ مسلم لیگ اور پی پی پی سے بات نہیں ہوسکتی۔ آپ حکومت میں ہوتے تو بھی کسی سے ہاتھ نہیں ملاتے اور اپوزیشن میں بھی کسی کے ساتھ نہیں بیٹھتے اتنی بڑی پی ٹی آئی جس نے 92 سیٹیں لی ہے وہ وحدت المسلمین اور سنی کونسل کہلائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں آپ جیتے وہاں الیکشن صاف شفاف اور جہاں آپ ہارے وہاں الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ الزام تراشی کی سیاست ختم ہونی چاہیے۔