مونیکا لیونسکی کی کہانی

مونیکا لیونسکی کی کہانی
آپ میں سے کتنے ہیں جنہوں نے کبھی غلطی نہیں کی اور خاص طور پر جب آپ بائیس سال کے تھے؟ ٹیڈ ٹاک کے دوران 42 سالہ مونیکا لیونسکی نے جب یہ سوال ایک ہزار حاضرین کے سامنے رکھا تو سناٹا چھا گیا۔ کیا ایسا بھی ہوا کہ اس ایک غلطی کی سزا آپ کو ساری عمر ملتی رہے؟ آپ جہاں جائیں، آپ پر آوازے کسے جائیں، آپ کو کوئی نوکری دینے کو تیار نہ ہو، آپ سے کوئی شادی نہ کرے؟ مونیکا رواں تھی۔



دا پرائس آف شیم نامی اس ویڈیو کو دیکھ کر ہی آپ اس بارے کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن یہ مونیکا ہے کون اور یہ سب ماجرا ہے کیا؟

نوے کی دہائی والے تو جانتے ہیں لیکن گوگل جنریشن کو بتانا ضروری ہے اس لئے اینڈریو مارٹن کی لکھی اس کتاب کا ریویو پیش ہے۔

23 جولائی 1975 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں یہودی کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر کے گھر پیدا ہونے والی مونیکا کو معلوم نہ تھا کہ ایک دن دنیا کے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر صرف اس کا نام ہوگا۔ بچپن سے ہی فربہی مائل مونیکا کو ہم عمر اور سکول فیلوز کے مسلسل مذاق کا سامنا تھا۔ اس مسلسل انگشت نمائی نے اسے احساس محرومی اور تنہائی جیسے نفسیاتی عارضوں میں مبتلا رکھا۔ ٹین ایج میں والدین کی طلاق نے بھی اس کی ذات پر منفی اثر ڈالا۔

ایسے میں ایک ڈرامہ ٹیکنیشن اینڈی بلیلئر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس نے محبت سے تعبیر کیا اور اپنا جسم و جاں اس کے حوالے کر دیا۔ بلیلئر کھلاڑی تھا اور کھیل کے بعد اپنی راہ ہو لیا۔ مونیکا کیلئے یہ دھچکا ناقابل برداشت تھا۔ وہ اس کے پیچھے پورٹ لینڈ جا پہنچی جہاں اس کی شادی کی روح فرسا خبر اس کی منتظر تھی۔ اینڈی نے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن مونیکا کا نفسیاتی عدم توازن یہ بات سمجھنے سے انکاری تھا۔



بی اے کے بعد اسی ٹوٹے دل کی کیفیت میں اس کی نظر وہائٹ ہاوس میں ایک بغیر تنخواہ ٹریننگ پر پڑی جس نے بعد میں تنخواہ دار نوکری پر متنج ہونا تھا۔ وہ بلیلئر سے دور ہونے کیلئے واشنگٹن جا پہنچی جہاں ایک اور دھماکہ اس کا منتظر تھا۔ وہائٹ ہاؤس کا باس اور دنیا کا طاقتور ترین شخص 49 سالہ بل کلنٹن پہلی نظر میں ہی اس کے دل میں سما گیا۔ اس وقت وہ 22 سال کی تھی۔ حیرت انگیز طور پر وہائٹ ہاؤس میں منعقد عوامی تقریبات میں اس کا سامنا جب اپنے “کرش” سے ہوا، اس نے اس کے والہانہ پن کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کا مثبت جواب بھی دیا۔



ایک بہانے سے اسے مشہور زمانہ صدارتی دفتر اوول ہاؤس میں جانے کا موقع مل گیا جہاں اس نے بل سے فوراً اظہار عشق کر دیا۔ بل نے اس کی وارفتگی کا مثبت جواب دیا اور کہا کہ وہ بھی اسے پسند کرتا ہے۔ اس پسندیدگی کا ثبوت اس نے مونیکا کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کر کے دیا۔ اگلے چھ سات مہینے ان کا یہ خفیہ تعلق چلتا رہا جس میں کلنٹن اسے اس کے اپارٹمنٹ پر لمبی لمبی فون کالیں بھی کرتا تھا۔ اس دوران مونیکا تنخواہ دار پکی نوکری پر آ چکی تھی۔



صدر کی سیکرٹری ایولین کو کچھ شک گزرا اوراس نے صدر کو بتائے بغیر مونیکا کا تبادلہ پینٹاگان میں کر دیا۔ صدر اس سلسلے میں اگر کچھ کرتا تو شک واضح ہو جاتا اس لئے وہ خاموش رہا۔ مونیکا کیلئے یہ ناقابل برداشت تھا۔ اس نے کلنٹن سے وعدہ لیا کہ الیکشن کے بعد وہ اسے واپس بلا لے گا۔ ان دونوں کی رومانوی ملاقاتیں اب ذرا تاخیر سے ہونے لگیں جن میں جنسی تعلق کلنٹن کی شدید خواہش ہوتی تھی جس کی تکمیل میں مونیکا نے کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔ ان دونوں میں تحائف کا بھی تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔

الیکشن کے بعد کلنٹن اپنے وعدے پر پورا نہیں اترا اور مونیکا کی وہائٹ ہاوس واپسی کیلئے کوئی کوشش نہیں کی۔ اس نے مونیکا کا دل توڑ دیا جسے اس نے عہد صدارت کے بعد شادی کا بھی کہا ہوا تھا۔ اس نفسیاتی عدم توازن میں اس نے پنٹاگان میں اپنی کولیگ لنڈا ٹرپ کو دل ہلکا کرنے کیلئے سب بتا دیا۔ لنڈا اتنی بڑی آستین کا سانپ نکلی کہ اس نے یہ سب رکارڈ کر کے صدر مخالف وکیل کینیتھ سٹار کو دے دیں۔ سٹار نے مونیکا کو 27 سال جیل کی دھمکی دے کر اعترافی بیان لکھوا لیا۔ کلنٹن نے بھی پہلے انکار اور پھر اقرار کر لیا۔



اس سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد مونیکا کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ کیمرا مینوں کی ایک فوج ہر وقت اس کے تعاقب میں ہوتی۔ اس کا وکیل اس کے کیس کی بجائے ٹی وی انٹرویوز میں زیادہ دلچسپی لینے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے زندگی کا وہ کٹھن ترین دور گزارا لیکن ایک مستقل بدنما داغ اس کی ذات کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ وہ حالانکہ دنیا کے مشہور ترین لندن سکول آف اکنامکس سے نفسیات میں ماسٹرز کر آئی لیکن اس کی شناخت ایک فاحشہ کی ہی رہی۔

ایک نوخیز 22 سالہ حسینہ جس کے جذباتی ابال کا فائدہ کلنٹن جیسے تجربہ کار جنسی جانور نے پورے طور اٹھایا، کیا معاشرے کے اس رویے کی حقدار تھی؟ اینڈریو مارٹن نے یہ سوال بہت پراثر طریقے سے اٹھایا ہے۔ انتہائی شاندار زبان اور طریقے سے اس نے مونیکا کا مقدمہ پیش کیا ہے۔

یہ صرف مونیکا کی کہانی نہیں۔ یہ پوری دنیا کے کٹھور پن کی کہانی ہے۔ یہ کل عالم کی سنگدلی کی کہانی ہے جس کی قیمت اکیلی مونیکا کو چکانی پڑی۔
مونیکا، معاشرے کی اس سنگدلی پر میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔

سید جواد احمد لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں پر دو کتب لکھ چکے ہیں۔