ایک انگریزی اخبار کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا 2018 کے انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت امریکی شہری تھے۔
ایک انگریزی اخبار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس وقت وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے 2018 کے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ امریکی شہری تھے اور یہ کہ ان کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرایا جانے والا حلف نامہ جعلی تھا کہ ان کے پاس غیر ملکی شہریت نہیں ہے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیصل واوڈا نے اپنے کاغذات نامزدگی میں حلفاً کہا کہ وہ صرف پاکستانی شہری ہیں تاہم دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ جب انہوں نے کاغذات جمع کرائے وہ امریکی شہری بھی تھے۔
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق فیصل واوڈا کے معاملے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 8 جون تھی جسے مزید تین دن کیلئے بڑھایا گیا تھا۔ واوڈا نے اپنے کاغذات 11 تاریخ کو جمع کرائے اور ایک حلف نامہ بھی جمع کرایا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس غیر ملکی شہریت نہیں ہے۔ این اے 249 سے ریٹرننگ افسر نے ان کے کاغذات کی 18 جون 2018 کو منظوری دی جس کے بعد 22 جون 2018 کو واوڈا نے امریکی شہریت کی تنسیخ کیلئے شہر میں امریکی قونصل خانے میں درخواست جمع کرائی جس کا مطلب یہ ہوا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت وہ امریکی شہری تھے۔ اگرچہ شہریت کی تنسیخ کا عمل مختلف محکموں سے کلیئرنس کے بعد کچھ ہفتوں میں مکمل ہوتا ہے لیکن دی نیوز اخبار کے مطابق قونصل خانے کی طرف سے انہیں شہریت کی تنسیخ کا سرٹیفکیٹ 25 جون 2018 کو جاری کیا گیا۔
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق اخبار کی جانب سے فیصل واوڈا کو پہلے 27 مارچ 2019 کو واٹس ایپ پر سوال نامہ بھیجا گیا تاکہ ان کا موقف معلوم کیا جا سکے جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہیں ایک مرتبہ پھر 10 اپریل 2019 کو سوالنامہ بھیجا گیا جس کا انہوں نے صرف اتنا جواب دیا ’’Please go ahead‘‘ (آگے بڑھو)۔
پی ٹی آئی میں وزیراعظم عمران خان سے قربت رکھنے والے ایک سینئر ماہر قانون کے مطابق فیصل واوڈا کے معاملے میں آرٹیکل 63 ون سی کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے اور انہیں نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے یا پھر ان کا انتخاب کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے، یا پھر انہیں جھوٹ بولنے پر سزا سنائی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں یہ واضح کر دیا ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدواروں کے پاس غیر ملکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ ہونا چاہئے۔ 2018 میں سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹرز سعدیہ عباسی اور ہارون اختر کو بھی کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت دہری شہریت پر نااہل قرار دیا تھا۔
ترجمان الیکشن کمیشن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ وہ ازخود نوٹس نہیں لے سکتے، کسی رکن پارلیمنٹ کو فیصل واوڈا کی دہری شہریت چیلنج کرنا ہو گی۔
فیصل واوڈا کی دہری شہریت کے معاملے پر سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ افسر نے غلطی کی، الیکشن کمیشن کو ازخود نوٹس لے کر کارروائی کرنی چاہیے۔