احمدی کمیونٹی نئے پاکستان میں تحفظ کی منتظر ہے

احمدی کمیونٹی نئے پاکستان میں تحفظ کی منتظر ہے
تحریر: (ارشد سلہری)  وطن عزیز میں خود کو احمدی کہنا تو کجا احمدیوں کے متعلق نرم رویہ رکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ نرم رویہ ہو نہ ہو اگر آپ احمدیوں سے نفرت کا اظہار نہیں کرتے ہیں تو پھر بھی آپ کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا۔

گزشتہ دنوں ایک دفتری کولیگ نے اسرار کرنا شروع کر دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو لعنت ملامت کریں ورنہ ہم سمجھیں کہ تم بھی احمدی ہو۔ راقم الحروف نے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ احمدی نہیں ہے اور مرزا صاحب کو گالی دینے سے انکار کر دیا کہ میں کسی کو گالی نہیں دے سکتا ہوں۔ اب وہ کولیگ اکثر واٹس ایپ پر مرزا صاحب کو گالیاں لکھ کر بھیجتا رہتا ہے۔

دوسری جانب راقم کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ راقم مرزائی، قادیانی اور کافر ہے۔ اس دن سے کئی کولیگز کا رویہ بدل گیا ہے۔ یہاں تک مل کر چائے پینے، کھانا کھانے سے بھی گریز برتنے کی نوبت آ چکی ہے۔ گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر ایک احمدی بزرگ کی ویڈیو گردش کر رہی ہے ۔ جس میں بزرگ احمدی امریکی صدر ٹرمپ کو احمدیہ کمیونٹی اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے اردو میں بتا رہا ہے۔ انگریزی ترجمہ شان تاثیر کر رہے ہیں۔ اب اس ویڈیو کو لیکر نفرت کے مزید الاؤ جلائے جا رہے ہیں کہ دیکھیں قادیانی اور شان تاثیر ملک اور اسلام دشمنی کے خلاف شازش کر رہے ہیں۔ ویڈیو کو جنگل میں آگ کی طرح پھیلانے کی ہدایات دی جا رہی ہیں ۔

سازش تو تب ہوتی کہ احمدی بزرگ غلط بیانی سے کام لے رہا ہوتا جو کچھ وہ کہہ رہا ہے وہ سب کچھ غلط ہوتا،  شان تاثیر کے والد گورنر سلمان تاثیر بھی نفرت کی بھینٹ نہ چڑھا ہوتا ، احمدی عبادتیں گاہیں نہ جلائی ہوتیں،  احمدیوں کا عرصہ حیات تنگ نہ کیا ہوتا،  پھر کہا جا سکتا تھا کہ احمدی دروغ گوئی سے کام لیکر ملک اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں،  پاکستان کا کوئی شہری بزرگ احمدی کی ایک بات کو بھی جھٹلا نہیں سکتا ہے اور اس امر سے انکار نہیں کر سکتا ہے کہ جو بزرگ احمدی نے ٹرمپ کے سامنے باتیں کی ہیں وہ غلط ہیں اور محض پروپیگنڈا ہے۔

حقیقت سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ابھی چند پہلے سکھر میں ایک بے گناہ احمدی کو دن دیہاڑ ے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ سیالکوٹ میں چند مذہبی سیاسی مقامی راہنماوں نے بلوا کر کے احمدی عبادت گاہ مسمار کردی تھی۔

لاہور میں احمدیوں کی دو عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے جس میں سینکڑوں احمدی جاں بحق ہو گئے تھے ۔ نفرتیں پھیلانے والے کیا یہ چاہتے ہیں کہ ہم قتل کریں۔ احمدیوں سے جینے کا حق بھی چھین لیں اور احمدی چپ چاپ رہیں۔ آہ بکا بھی نہ کریں۔ شکایت بھی نہ کریں۔ خاموشی سے قتل ہوتے رہیں، مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر نفرت بعض کے نزدیک جزو ایمان ہے اور ان کی پیدا کردہ نفرتیں کئی انسانوں کی جان لے چکی ہیں ۔ اللہ جانے آگے کتنے بے گناہ لوگ ان نفرتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ ریاست نفرتوں کےخلاف بھی بیانیہ دے۔ ایسے لوگوں کا بھی احتساب کیا جائے جو مذہب اور عقیدے کے نام پر نفرتوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو چند مذہبی قوتوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ عمران خان حکومت نے جس طرح مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی جان بچائی ہے اور اسے آزادی دی ہے۔ امید ہے نئے پاکستان میں احمدیوں سمیت تمام اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے گا اور تمام اقلیتوں کو برابر کے شہری کی حیثیت سے تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں گے۔ نفرتوں کے مراکز ختم ہوں گے ۔ انسانی اقدار کو فروغ ملے گا ۔ ہر مذہب اور عقیدے کا احترام کیا جائے گا۔ ایک دوسرے کی مقدسات کو مقدس ہی سمجھا جائے گا۔ مذہب اور عقیدے کے نام پر قتل وغارت گری کا باب بند ہوگا ۔

 

 

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔