Get Alerts

عدالت کی ایف بی آر کو ہدایات اختیارات سے تجاوز ہیں: بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی

عدالت کی ایف بی آر کو ہدایات اختیارات سے تجاوز ہیں: بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی
بیگم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کیس میں فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کر دی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور ایف بی آر کو حکم دینے کی اس کے پاس کوئی قانونی گنجائش موجود نہیں تھی۔

بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے یہ درخواست 20 جولائی کو دائر کی ہے اور اس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامے میں آئین کے آرٹیکل 175(2) میں دیے گئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

درخواست کے مطابق سپریم کورٹ اور اس کے محترم ججز کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہنا چاہتی ہوں کہ ان کے لکھوائے گئے حکم نامے میں ایف بی آر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس درخواست گزار اور اس کے بچوں کو نوٹسز جاری کرے، اور یہ کہ 60 دن کے اندر اندر ان نوٹسز پر کارروائی مکمل کرے، اور یہ کہ ایف بی آر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنی کارروائی سے متعلق رپورٹ کرے، اور کونسل کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس رپورٹ کی روشنی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی کرے۔

یہ تمام ہدایات آئین کے آرٹیکل 175(2) کے دائرے میں رہتے ہوئے سپریم کورٹ نہیں دے سکتی تھی جس کے مطابق کوئی عدالت آئین اور قانون میں دیے گئے اختیارات سے تجاوز کرنے کی مجاذ نہیں۔

بیگم قاضی فائز عیسیٰ کا اس درخواست میں کہنا ہے کہ انہیں سنا ہی نہیں گیا۔ انہوں نے بغیر کسی قانونی ضرورت کے خود کو عدالت کے سامنے پیش کیا، خود سے اپنی آمدنی کے تمام ذرائع عدالت کے سامنے پیش کیے اور یہ بھی بتایا کہ کن چینلز سے یہ رقوم ملک سے باہر بھجیجی گئیں۔

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ایف بی آر کے کمشنر کو دی گئی ہدایات کسی قانون  کے تحت نہیں بھیجی گئیں اور آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت درخواست گزار کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کو مسترد کرنے کے بعد عدالت کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں تھا جس کے تحت وہ درخواست گزار کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کا حکم دیتی۔

واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس ریفرنس میں ایف بی آر اور دیگر اداروں کی بدنیتی شامل تھی، لیکن اس کے باوجود معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا گیا۔ اس فیصلے سے ان لوگوں کو جو پہلے ہی میرے شوہر کو سپریم کورٹ سے نکلوانا چاہتے ہیں ایک اور موقع میسر آ جائے گا کہ وہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پراپیگنڈا کریں، انہیں زبردستی اس کیس میں گھسیٹیں۔

ایف بی آر کا چیئرمین کسی بھی قانون کے تحت درخواست گزار کے ٹیکس ریٹرنز سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش نہیں کر سکتا کیونکہ قانون میں درج کوئی شق اسے اس چیز کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ ہدایات بھی درخواست گزار کے انکم ٹیکس آرڈیننس اور آئین کی شقوں 4 اور 14 میں درج حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

وہ مزید لکھتی ہیں کہ سپریم کورٹ کے آرڈر نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایسے اختیارات خود سے تفویض کر دیے ہیں جو کہ قانون کے تحت اس کو نہیں دیے گئے۔

ایف بی آر کو درخواست گزار اور ان کے بچوں کو نوٹس جاری کیے جانے کی ہدایات دینے کا اختیار آرٹیکل 184(3) میں سپریم کورٹ کے دیے گئے اختیارات سے مطابقت نہیں رکھتا اور یہاں بھی سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

اہم ترین معاملہ جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم کی جانب سے فائل کردہ پیٹیشن میں اٹھایا گیا ہے وہ indecent haste یعنی غیر ضروری عجلت کا ہے۔ ان کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے عجلت میں فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ درخواست گزار کی ذاتی زندگی میں جو نقصان ہوا ہے، اس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا، ان کے شوہر کو جو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اس کا بھی کوئی احساس نہیں کیا گیا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عدالت کے تفصیلی فیصلے سے قبل ہی اس نے درخواست گزار اور ان کے بچوں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں جب کہ عدالت کی جانب سے تفصیلی استدلال تفصیلی فیصلے میں ہی دیا جائے گا کہ کون سا حکم کس قانون کے تحت دیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایف بی آر یکسوئی کے ساتھ درخواست گزار کو کسی بھی قسم کے قانونی راستے کو استعمال نہ کرنے دینے کی نیت سے اس عجلت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ درخواست گزار آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرِ ثانی کی درخواست بھی نہ دے سکے۔

ان تمام دلائل کی روشنی میں بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ اپنے حکمنامے پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے پیراگراف 3 سے 11 تک کو اس میں سے خارج کرے۔ یاد رہے کہ یہ وہی تمام پیراگرافز ہیں جن میں عدالت نے ایف بی آر کو ہدایات جاری کی تھیں۔

جب تک تفصیلی فیصلہ نہیں آ جاتا، اس کیس پر تمام کارروائی کو روک دیا جائے اور اس کے علاوہ بھی عدالت اگر کوئی ریلیف دے سکتی ہے تو درخواست گزار کو فراہم کیا جائے۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں ایک مولوی آغا افتخارالدین کی جانب سے دی گئی تھیں اور اس شخص کے خلاف اس وقت بھی عدالت میں مقدمہ درج ہے۔ چند ہفتے قبل ایف بی آر میں بھی اچانک کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں جو کہ تجزیہ کاروں کے مطابق ممکن ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس پر اثر انداز ہونے کے لئے ہی کی گئی ہوں۔