ایم کیو ایم منقسم، پی ٹی آئی نڈھال؛ کراچی کی قیادت کون سنبھالے گا؟

ایم کیو ایم منقسم، پی ٹی آئی نڈھال؛ کراچی کی قیادت کون سنبھالے گا؟
کراچی شہر سال ہا سال سے ہمارے حکمرانوں کی لاپرواہی کا شکار رہا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے بس اب آخری سانسیں لے رہا ہو۔ ملک کی معیشت کا مرکز کہلانے والے شہر کراچی کو بہتر بنانے کیلئے ماضی میں اربن پلاننگ کے نام پر متعدد ماسٹر پلان بںائے گئے لیکن افسوس کہ ان میں سے ایک بھی مکمل طور پر لاگو نہیں ہو سکا کیونکہ وقتی طور پر عوام میں مقبولیت حاصل کر کے الیکشن میں مزید ووٹ حاصل کرنے کی بدنیتی اس میں شامل تھی۔ شہر کے سیاسی و غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز کے مابین ہم آہنگی کا فقدان اور اعتماد کی کمی رہی اور مل بیٹھ کر شہر کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی نظر نہیں آئی۔

انفرادی یا جماعتی بنیادوں پر مسائل کے حل کی کوششیں ہمیشہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عدم تعاون و عدم دلچسپی کے باعث کامیاب نہ ہو سکیں۔ کراچی میں 1885 میں یعنی انگریزوں کے دور میں جدید ٹرام وے چل چکی تھی جسے 1975 میں بند کر دیا گیا۔ 1964 میں سرکولر ریلوے سسٹم کا نظام متعارف کروایا گیا لیکن اسے بھی ناکام بنا کر بند کر دیا گیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ شہر گند، کچرے کا انبار اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں و نالوں کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہوتا چلا گیا۔

آج سٹریٹ کرائم اس حد تک تجاوز کر گئے ہیں کہ سڑک پر چلنے والا ہر انسان خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد ان مسائل کا حل نکالنا صوبائی حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ 80 کی دہائی سے جب بھی الیکشن ہوئے، سندھ میں طویل مدت تک ایک ہی جماعت صوبائی حکومت بناتی رہی اور خود کو کراچی کی نمائندہ جماعت کہلوانے والی جماعت اپوزیشن ہی کی سیاست کرتی رہی؟

تین دہائیوں سے اس شہر نے جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کے نشیب و فراز سے بھرے عروج و زوال کا دور، پھر ایم کیو ایم (پاکستان)، ایم کیو ایم حقیقی اور پاک سرزمین پارٹی کا جنم، اور ان سے مایوسی کے بعد لوگوں کا تحریک انصاف کی جانب جھکاؤ اور 2018 کے انتخابات میں اس جماعت کی کامیابی کی صورت میں دیکھا۔ یہ تمام جماعتیں اپنے اپنے وقتوں میں مذہبی، نسلی و لسانی اختلافات اور تبدیلی کے نام پر عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہیں اور پارلیمان تک رسائی بھی حاصل کر لی لیکن صرف شہری سندھ پر توجہ مرکوز رکھنے اور دیہی سندھ کی سیاست میں عدم دلچسپی اور سیاسی طور پر قدم نہ جما پانے کی وجہ سے یہ جماعتیں سادہ اکثریت حاصل کر کے صوبے میں اپنا وزیر اعلیٰ بھی لانے میں ناکام رہیں۔

ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی نے شہری علاقوں میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، اپنے میئرز لگائے، لیکن ہم نے دیکھا کہ بلدیاتی نظام صرف آمرانہ دور میں ہی بھرپور اختیارات کے ساتھ کام کر سکا۔ قصہ مختصر، کراچی کی ہر نمائندہ جماعت نے اپنے وقت میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے بس شور شرابہ مچایا اور کھوکھلے نعرے لگائے لیکن بڑے پیمانے پر مسائل حل نہ کر سکنے کی وجہ سے آج بھی اس شہر میں عوام میں مایوسی اور اس قدر سیاسی ویکیوم پیدا ہو چکا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس بار جو بھی شہر میں دل لگا کر ترقیاتی کام اور عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کر گیا تو یہ معصوم عوام شاید اسے اپنے سر کا تاج بنا لیں۔

اس مایوس کن صورت حال میں عوام نے پلٹ کر شہر کی ان سیاسی جماعتوں کو جو ماضی میں عوام کی توجہ کا مرکز رہیں، یاد ضرور کیا ہے۔ کراچی کی اردو سپیکنگ کمیونٹی جو تحریک انصاف سے بھی قدرے مایوس ہونے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی جانب دیکھ رہی تھی اور شہر کی بہتری کے بارے میں سوچنے والے حلقوں کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے تقسیم شدہ دھڑوں کو یکجا کر کے ایک منظم جماعت کی صورت میں دوبارہ عوام کی من پسند جماعت بنایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ تجربہ بھی کر لیا گیا لیکن امیدوں کے برعکس خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔

ماضی میں ایم کیو ایم کی کامیابی کی بڑی وجہ اس جماعت کی طاقتور تنظیم کی گراؤنڈ پر موجودگی اور عوام کے درمیان رہ کر ان کے مسائل حل کرنا تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم (پاکستان) نے اپنی کامیابی کی یہ کنجی کسی بکسے میں رکھ کر زمین میں دفنا دی اور تمام آسرے یکجا کرنے والوں سے لگا لیے۔ انہیں یکجا کرنے والوں کی سوچ یقیناً مثبت ہو گی لیکن گراؤنڈ پر کارکردگی تو بہرحال اس جماعت نے ہی دکھانی تھی جس میں انہیں اب تک شدید ناکامی کا سامنا ہے۔ انہی ناکامیوں کے باعث کراچی کے عوام انتہائی مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔

غور کرنے کی بات ہے کہ جس ٹیم نے ایم کیو ایم جیسی منظم سیاسی تنظیم میں تربیت حاصل کی ہو وہ تو آج بھی کراچی میں ایم کیو ایم (پاکستان) کے نام سے موجود ہے لیکن ان سب کو یکجا کر لینے کے بعد بھی عوام میں اس جماعت کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں مل رہی۔ ایم کیو ایم (پاکستان) فی الوقت پی ڈی ایم کے ساتھ وفاقی حکومت میں اتحادی ہے، پیپلز پارٹی بھی اسی پی ڈی ایم کی اتحادی ہے اور ایم کیو ایم کی کراچی میں روایتی حریف بھی۔ ایم کیو ایم کی مشکل یہ ہے کہ وہ ایک جانب انہی جماعتوں کے ساتھ وفاق میں اتحادی ہے جبکہ سندھ میں گورنر ایم کیو ایم کا نمائندہ ہے اور پھر وہ صوبے میں اپوزیشن کا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے جو اس کے اپنے ووٹرز اور ہمدردوں کیلئے کنفیوژن کا باعث ہے۔

کہتے ہیں جنگل کے بادشاہ شیر کا دل ایک لڑکی پر آ گیا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً اس کے گھر رشتہ بھجوا دیا۔ لڑکی کا باپ گھبرا گیا- مشورہ لیا اور شیر کو پیغام بھجوایا کہ میری بیٹی نہایت نازک ہے، تمہارے دانت اور نوکیلے پنجوں سے اس پر لرزہ طاری ہو جائے گا لہٰذا اگر رشتہ چاہئیے تو اپنے دانت اور ناخن کٹوانے ہوں گے- شیر لڑکی کی محبت میں دیوانہ ہوا جا رہا تھا، فوراً اپنے ناخن اور دانت نکلوا کر رشتہ لینے لڑکی کے گھر پہنچ گیا- لڑکی کے باپ نے شیر کو دیکھتے ہی اس کے گلے میں پٹہ ڈال کر اسے گلی کی نکڑ پر ہونے والے سرکس میں بٹھا دیا۔

ایم کیو ایم کا انضمام یا ایم کیو ایم لندن پر لگی پابندیاں کھلنے کی دبی دبی خواہشیں چالیس پینتالیس سال سے اوپر کی عمر والوں کا تو جذباتی رومانس ہو سکتی ہیں تاہم بیس برس سے زائد اور چالیس برس سے کم عمر والوں کو ایم کیو ایم کی تاریخ سے براہ راست خاص واقفیت، انسیت یا لگاؤ نہیں رہا۔ یا تو وہ خان صاحب سے واقف ہیں یا پھر انہیں کراچی کے مسائل پر دھواں دار تقاریر اور مہم جوئی کرتے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان نظر آتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال صاحب کی بہترین میئرشپ کے بعد پارٹی سربراہ کے طور پر ان کی پاک سرزمین پارٹی سے نئی نسل کی کچھ امیدیں وابستہ ضرور ہوئیں لیکن الیکشن 2018 میں ان کی جماعت کی طرف سے قومی و صوبائی اسمبلی تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کے بعد یہ امیدیں بھی کم و بیش دم توڑ گئیں۔

نئی نسل کو 2016 کے بعد اپنی طرف مائل نہ کر پانا بھی ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی زوال کی بڑی وجہ ہے۔ نیا خون، نیا جوش و ولولہ اور پڑھے لکھے نوجوان جو سوشل میڈیا کے بدلتے ٹرینڈز سے پوری طرح واقف ہوں، کسی بھی سیاسی جماعت کو چلانے اور اس کا پیغام عوام تک پہنچانے میں آج مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

دوسرا اس پارٹی میں اب دو تین پرانے ناموں کے علاوہ خواتین لیڈرز اور نوجوان فرنٹ پر نہیں دکھائی دیتے جو کہ ایک زمانے میں اس سیاسی جماعت کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ تھی۔ خصوصاً خواتین نہ کسی ٹاک شو میں اور نا ہی کسی پریس کانفرنس میں مرکزی کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔

9 مئی کے دلخراش واقعے کے بعد پورے ملک کا سیاسی پس منظر تبدیل ہو رہا ہے اور کراچی میں بھی آئندہ انتخابات میں تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں منتخب نمائندوں کی کارکردگی بھی اگلے جنرل الیکشن میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اس دوڑ میں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور کچھ حد تک تحریک انصاف شامل ہیں۔ کونسلرز اور یونین کونسل چیئرمینز کی صورت میں ان جماعتوں کے منتخب نمائندے گلی گلی میں موجود ہیں اور عوام سے قریب ہو کر اپنے کردار، کام اور عوامی خدمت سے ان کے دل میں اپنے لئے جگہ بنا سکتے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان نے حالیہ بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کر کے ناپختہ سیاسی سوچ کا مظاہرہ کیا اور اب اگلے چار سال کیلئے عوامی سطح پر نمائندگی کھو کر اس دوڑ سے بظاہر باہر ہو چکی ہے۔ اب اسے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔

آنے والے عام انتخابات میں کراچی کی نمائندگی اور قیادت کا میدان کھلا ہے اور تمام ہی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی امید کی جا سکتی ہے۔ مقامی حکومتوں میں شامل سیاسی جماعتوں کو واضح فوقیت حاصل ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی سمیت شہری سندھ کے لوگ اپنا ووٹ کسی ایک جماعت کو دے کر کامیاب بناتے ہیں یا شہر کا مینڈیٹ تقسیم ہوتا دکھائی دے گا۔ میدان بھی سامنے ہے اور مقابلہ بھی دور نہیں، دیکھتے ہیں بازی کون جیتتا ہے۔