ہراساں کیے جانے کا تصور صرف جنس تک محدود نہیں، وفاقی خاتون محتسب نے واضح کر دیا

وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کشمالہ طارق یہ یقین رکھتی ہیں کہ خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر ’’گڈ مارننگ‘‘ اور دعائوں کے پیغامات بھیجنا بھی انہیں ہراساں کرنے کے مترادف ہی ہے۔

انہوں نے کہا، وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کو قائم ہوئے ایک برس ہو چکا ہے، ہمارا مقصد مردوں کو چیلنج کرنا نہیں بلکہ صنفی توازن قائم کرنا ہے۔

https://youtu.be/nPdhb_ElZG8

کشمالہ طارق نے ان خیالات کا اظہار راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیراہتمام منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا، اگر مرد خواتین کے رویوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پہلے انہیں خود تبدیل ہونا پڑے گا۔

انہوں نے کہا، وہ خواتین جو پیشہ ورانہ امور کے علاوہ گھریلو ذمہ داریاں بھی ادا کر رہی ہیں، وہ درحقیقت ’’سپروومن‘‘ ہیں۔



ان کا کہنا ہے کہ کچھ قوانین بہت اچھے ہیں مگر کہیں نہ کہیں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ اس وقت بنیادی ضرورت بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔ میں سمجھتی ہوں، جب تک معاشرے میں برداشت نہیں آئے گی، کسی بھی قسم کی بہتری کی امید رکھنا عبث ہے۔

کشمالہ طارق نے کہا، اس تصور سے جان چھڑانا ہوگی کہ ’’ لوگ کیا کہیں گے‘‘ جب کہ مردوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو اس قدر سپیس ضرور دیں کہ مسائل حل ہو جائیں۔

انہوں نے ہراسانی کے تصور کو واضح کرتے ہوئے کہا، ہراساں کیے جانے کی کئی اقسام ہے اور اسے جنس سے نتھی کرنا درست نہیں ہے، جیسا کہ اگر کوئی آپ کو بار بار چائے کی پیشکش کرے تو یہ طرزعمل بھی ہراساں کرنا ہی کہلائے گا۔

https://youtu.be/_OnCpX21m9Q

وفاقی خاتون محتسب نے کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی ادارہ جہاں ’’ ہراسانی کمیٹی‘‘ قائم نہیں ہوگی، اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔