پاکستان کی ممتاز یونورسٹی لمز کے شعبہ عمرانیات اور قائد اعظم یونیورسٹی کے اشتراک سے ہونے والے سانحہ سقوط ڈھاکہ پر مباحثے کے لیئے طے شدہ پروگرام کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
پروگرام کے آرگنائزرز میں شامل محقق عثمان قاسمی کے مطابق یہ پروگرام پانچ دنوں پر مشتمل ہوگا جس میں مختلف سیشنز میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے متعلق موضوعات پر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو مباحثوں میں شریک ہونا تھا۔ یہ پروگرام سقوط ڈھاکہ کو پچاس سال مکمل ہونے پر منعقد کیا جا رہا تھا۔ اہم بات یہ کہ اس پروگرام کا نام 1971 کی جنگ میں تشدد: پچاس سالہ یاد۔
تاہم اسے اب منسوخ کردیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ چونکہ یہ ریاستی بیانیئے کے خلاف ہے اس لیئے مقتدر حلقوں کی جانب سے اس پر دباؤ آرہاہے۔
اس حوالے سے اہم یہ ہے کہ سینیر صحافی اعجاز حیدر نے بھی لمز پر شدید تنقید کی ہے، انہوں نے کہا کہ کیا لمز کشمیر اور مذہبی اقلیتوں کے بارے میں بھارتی ریاست کے کردار پر صرف دو دن کا ہی پروگرام کرے گا؟
انہوں نے کہا کہ میں رائے کے تنوع کا داعی ہوں اور ابھی بھی اس موقف پر قائم ہوں لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی پاکستان نے اپنا بیانیہ بین الاقوامی سطح پر رکھنا ہوتا ہے اور اسے اس حوالے سے جگہ میسر ہوتی ہے تو اسی وقت لمز جیسے کردار ایسے پروگرام اور ایسے ریاست مخالف بیانیہ ساز میدان میں آجاتے ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ بھارتی کردار پر کون کتنی بات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نقشہ دیکھا ہے وہ اب بھی لاہور میں ہیں اگر یہی کرنا ہے تو دہلی چلے جائیں۔
https://twitter.com/ejazhaider/status/1373022606580969478
ان کوجواب دیتے ہوئے ایک ٹویٹر صارف نے پوچھا کہ تو آپکے مطابق کیا پاکستان 1958 کے بعد سے ایک یکشاہی مطلق العنان ریاست نہیں ہے؟
ایک اور صارف ایوب منہاس نے اعجاز حیدر کو لکھا کہ کہ بہت اچھی نصحیت دے رہے ہیں آپ پاکستان کے اس آدھے حصے کو جس کا آدھا حصہ پچاس سال پہلے علیحدہ ہوگیا اور آج یہ حصہ سیاسی زوال اور معاشی ابتری کا شکار ہے۔