جیک ما کا علی بابا سے ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تدریس کے انتخاب کا فیصلہ

چین کے امیرترین شخص ریٹائر ہونے کے بعد دوبارہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں ’’ علی بابا‘‘ کے مالک جیک ما نے یہ اعلان کر کے اپنے چاہنے والوں کو ششدر کر دیا تھا کہ وہ ایک سال کے اندر اندر علی بابا کے چیئرمین کے عہدے سے دستبردار ہو جائیں گے۔

انہوں نے رواں ہفتے دوبارہ اس عزم کا اعادہ کیا اور کہا، وہ ستمبر میں علی بابا سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک بار پھر استاد بن جائیں گے۔

واضح رہے کہ علی بابا آن لائن دنیا کی بڑی اور اہم ترین ای کامرس کمپنیوں میں سے ایک ہے اور جیک ما اس کے ناصرف بانی ہیں بلکہ وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر ہی اسے دنیا کی ایک بڑی ای کامرس کمپنی بنانے کے قابل ہوئے لیکن وہ اب کمپنی کی 20 ویں سالگرہ پر اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے جو 10 ستمبر کو منائی جائے گی۔



جیک ما اس وقت 40.9 ارب ڈالرز کے اثاثوں کے مالک ہیں جنہیں اگر پاکستانی روپوں میں تبدیل کیا جائے تو یہ رقم لگ بھگ 45 کھرب روپے پاکستانی سے زیادہ بنتی ہے اور وہ اس وقت دنیا کے 19 ویں امیر ترین ارب پتی ہیں لیکن وہ ہمیشہ سے اس قدر امیر نہیں تھے بلکہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ان کی ماہانہ آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔

جیک ما 1988 میں گریجویشن کرنے کے بعد اپنے آبائی علاقے ہانگژہ کی ایک یونیورسٹی میں ہی انگریزی پڑھانے لگے جہاں ان کی تنخواہ محض 12 ڈالر تھی۔

وہ کہتے ہیں، انہوں نے ایک بار دوبارہ تدریسی سرگرمیوں میں واپسی کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کیوں کہ پڑھانا ان کا جنون ہے۔

جیک ما کہتے ہیں، وہ علی بابا سے کمائی گئی دولت بینکوں یا سرمایہ داروں کو دینے کے بجائے چین میں تعلیمی نظام کی بہتری اور تبدیلی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔

جیک ما نے کہا، وہ خود کو اب بھی جوان سمجھتے ہیں اور اگلے کئی برس تک شعبہ تدریس میں خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے اس سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا، وہ اس وقت زیادہ خوش تھے جب ان کی آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی، وہ اپنی جدوجہد کے دور کو زندگی کا بہترین حصہ قرار دیتے ہیں۔



اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو جیک ما کے لیے ارب پتی ہونا ایک بوجھ کے مترادف ہے۔ آپ جب ایک ارب ڈالرز کما لیتے ہیں تو وہ آپ کی دولت نہیں ہوتی۔ میرے پاس جو دولت آج ہے، وہ ایک بھاری ذمہ داری ہے کیوں کہ یہ لوگوں کا مجھ پر اعتماد کا اظہار ہے۔

وہ اپنے انٹرویوز میں بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ آپ جب 10 لاکھ ڈالرز کما لیتے ہیں تو خوش قسمت ہیں مگر جب یہ رقم ایک کروڑ ڈالرز کے ہندسے کو چھو جاتی ہے تو آپ کے لیے بہت ساری مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔