ہم سب امید سے کیوں ہیں؟

سینیٹ کے انتخابات سے بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر تک، پاکستان کی سیاسی صورت حال میں مفاد پرستی، غیر یقینی صورت حال اور انتشار کا اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس سیاسی منظرنامے کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہر چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعت کی قیادت امید سے ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد وزیراعظم عمران خان خود ایک سال میں ہی دھرنے کے دوران امید سے ہو گئے تھے۔

پاکستان میں ان دنوں بلاول بھٹو زرداری سب سے ذیادہ امید یا پھر مشکل میں لگتے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں جو سیاسی افطار ڈنر دیا ہے، اس میں مریم نواز سے لے کر اُن تمام لوگوں نے شرکت کی جو اُمید سے ہیں۔ نون لیگ کے وفد نے شاہد خاقان عباسی کی رہنمائی اور مریم نواز کی قیادت میں شرکت کی جس میں حمزہ شہباز کی علامتی موجودگی اور مریم کی شرکت کو غیر سیاسی تاثر دینے کے لیے صفدر صاحب کی حاضری ہی لگائی گئی۔ پیپلز پارٹی اگر دعوت نامہ لاہور ہائی کورٹ کی وساطت سے ارسال کرتی تو شاید میاں نواز شریف بھی شرکت کر لیتے اور پھر مریم نواز واپسی پر انہیں جیل میں اتار کر خود رائیونڈ چلی جاتیں۔

حمزہ شہباز گاڑی چلانے کے فرائض سر انجام دے سکتے تھے مگر شاید اب میاں صاحب امید سے نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے شرکت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔



انتخابات کی شکست کو نو ماہ پورے نہیں ہوئے اور حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ طبی ٹیسٹ اور الٹرا سائونڈ کروائے بغیر مولانا فضل الرحمان دوبارہ امید سے ہو چکے ہیں۔ اگر یہ بوگس یا مس کال ہوئی تو اس کی وجہ ملین مارچ ہو گی اور کسی ماہر معدہ کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ ٹیسٹ اور علاج نہ کروانے کی صورت میں یہ کیفیت شدت اختیار کر کے سیاسی سے زیادہ جسمانی اور ذہنی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔

نون لیگ کی لندن، جیل اور رائیونڈ میں موجود حقیقی قیادت کا واضح سیاسی موقف تو شاید عوام کو اب اگلے انتخابات تک پتہ نہ لگ سکے تاہم رانا تنویر، خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی وغیرہ نے پارٹی کے اجلاسوں کی مشترکہ صدارت شروع کر دی ہے۔ اس فرضی قیادت نے کچھ دن پہلے ہی پی ٹی آئی کی پہلی سیاسی دلہن کے اسقاط حمل کی تجویز دے کر مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کر ڈالا تھا اور اس کی وجہ نااہلی، نا تجربہ کاری اور سیاسی غیر پختگی کو قرار دیا گیا۔ یہ مطالبہ چوں کہ قبل از زچگی کیا گیا ہے چنانچہ اس کی سنجیدگی، درستی اور اس سے جڑے ارادوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

حقیقت میں 2018 کی سیاسی شادی میں روایت کے مطابق حق مہر پانچ سال کی مدت کو ہی قرار دیا گیا تھا۔ نون لیگ نے بھی مرضی اور امید سے ہی شرکت کی تاہم انہیں اب وہ سیاسی دلہن اور ایسی اولاد چاہیے جو ’’میاں من‘‘ بھائے نہ کہ ’’پیا من‘‘۔ ظاہر ہے اپنی اولاد سے زیادہ اور کون ’’میاں من‘‘ بھائے گا۔ اسی لیے بلاول بھٹو نے مریم نواز کو افطار پر بلایا تھا تاکہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کا حل نکالا جا سکے۔



دوسری طرف پیپلز پارٹی کے ان داتا آصف علی زرداری 2018 کی سیاسی شادی سے پہلے سینیٹ کے انتحابات میں کردار ادا کرکے اپنی مرضی کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ اب دلہن، پیا اور نیب کی غلط حرکتوں سے مایوس ہو کر انہوں نے پی ٹی آئی کے بطن سے سیاسی اولاد کی ممکنہ پیدائش اور پرورش کو خدا نخواستہ سے تعبیر کردیا ہے اور عید کے بعد اس سیاسی دلہن کو لات مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے بلاول زرداری کا انتخاب کیا ہے جس کا اظہار بلاول پہلے ہی کر چکے ہیں۔

سیاسی افطار میں شریک ہونے والی شخصیات، مشروبات اور پکوان یہ بتاتے ہیں کہ حزب اختلاف نے پی ٹی آئی کے بطن سے پیدا ہونے والے ممکنہ سیاسی بچے کے اسقاط حمل کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس کے لیے عید کے بعد کا وقت چنا گیا ہے۔ افطار کے بعد بلاول بھٹو نے حزب اختلاف کی مشترکہ پریس کانفرنس کی صدارت سنبھالی اور سب رہنمائوں نے اپنی امیدوں کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا مختصر اظہار بھی کیا۔

طے شدہ حکمت عملی کے مطابق عید کے بعد پہلے مولانا فضل الرحمان آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے۔ ملین مارچ کی وساطت سے 2018 کے سیاسی نکاح کو مکروہ قرار دینے کی کوشش بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اگرچہ مولانا دو عدد ملین مارچ کر چکے ہیں تاہم اب ملین مارچ کی منزل اور ہدف اسلام آباد ہوگا جس میں نون لیگ ایک ملین اور پیپلزپارٹی نصف ملین کا ٹیکہ لگائے گی۔ مولانا فضل الرحمان نے جمہوریت میں لچک دکھاتے ہوئے لوگوں یا اس کے برابر امریکی کرنسی کا مطالبہ کیا ہے جو مسکراہٹ کے ساتھ بلاول اور مریم دونوں نے مان لیا ہے۔

تمام پارٹیوں کی قیادت نے کھانے کی میز پر اتفاق کیا ہے کہ مولانا صاحب کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ طلال چوہدری، خواجہ آصف، لطیف کھوسہ، پرویز رشید اور محمود اچکزئی جیسے منجھے ہوئے سیاست دان پی ٹی آئی کی سیاسی دلہن اور ہونے والی اولاد کو سماجی طور پر بدنام اور قانونی و آئینی لحاظ سے ناجائز قرار دینے کی کوشش کریں گے۔ سیاسی افطار پر طے ہونے والی حکمت عملی کے مطابق، اس سیاسی دلہن کو معاشی، انتظامی، مذہبی اور ذاتی دھکا دینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اسقاط حمل کے حالات پیدا ہوں یا کم از کم کسی جسمانی معذوری اور پیدائشی نقص کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس دوران کوشش ہوگی کہ پیا من کوئی نئی دلہن بھا جائے ورنہ پھر ’’دما دم مست قلندر‘‘ ہو گا۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کی سیاسی حاملہ دل اور جگر کے عارضے میں مبتلا ہے۔ خوراک کی کمی، تعلیم کا فقدان، دیسی علاج اور دانستہ لاپرواہی نہ صرف حاملہ کے لاغر پن اور بیماری کی صورت میں نظر آ رہی ہے بلکہ پچھلے دس سال میں پیدا ہونے والے دونوں سیاسی بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما موجودہ حالت میں بھی عیاں ہے۔



اس سے پہلے کہ پی ٹی آئی کے سیاسی بچے کی ولادت چوراہے یا کسی رکشے میں ہو اور کسی سرکاری اسپتال کے بچہ وارڈ میں پہنچنے سے پہلے ہی یہ ننھی روح دم توڑ جائے، دلہن اور پیا دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ ولادت تک معاشی، انتظامی اور سیاسی شعبوں کے ماہر ڈاکٹر کے علاج اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ شادی کی پہلی سالگرہ تک ممکنہ پیدائش کے بعد اس سیاسی بچے نے اگر پہلی اولادوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے تو اس کے لئے نہ صرف پیا اور دلہن کو زیادہ وقت دینا پڑے گا بلکہ گھر کے ماحول کو معاشی، انتظامی اور سیاسی لحاظ سے بھی ٹھیک کرنا ہوگا جس کے لیے اچھے استادوں اور معالجین کے علاوہ ٹھکائی کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے دونوں بچوں کو علاج اور تعلیم و تربیت کی غرض سے ملک سے باہر بھجوا دیں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر اندرون ملک کسی ہسپتال یا ہاسٹل میں رکھیں۔

پچھلے 72 سال کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی وارڈ میں مرضی کی شادی، پیا من بھانے کی ضرورت، دوران حمل بیماریوں، دوران زچگی پیچیدگیوں، خوراک کی کمی اور پرورش کے نقائص نے بے روزگاری، معاشی بدحالی، انتظامی خرابیوں، کرپشن اور معاشرتی بے راہ روی کو جنم دیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ گھر ہے جہاں ’’پیا‘‘ نے دس دس سال کے لئے تین دفعہ دلہن کو ’’من نہ بھانے‘‘ پر گھر سے نکال دیا تھا۔ ایسے حالات میں سیاسی دلہن کا بیماریوں اور بے راہ روی کا شکار ہونا اور سیاسی اولاد کا بگڑ جانا حیرانی کی بات نہیں ہے۔




مانا کہ امید سے ہونا پاکستانی جمہوریت کا حسن ہے لیکن قبل از وقت ایسی طبی، ظاہری یا علامتی حالت پورے سیاسی نظام کی بدنامی، بیماری یا تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستانی سیاست اس کی ایک تاریخی حقیقت ہے۔

آج کے پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ غریب، ان پڑھ اور متوسط طبقے کا پڑھا لکھا پاکستانی سوچتا ہے کہ مہنگائی کا جن قابو میں آ جائے گا۔ معیشت کے صحیح راستے کا تعین ہو گا۔ روپے کی قدر میں استحکام آئے گا۔ پاکستان کی زراعت اور صنعتی مشینری بھی چل پڑے گی۔ روزگار اور تعلیم میں اضافہ ہوگا۔ ملک کو درپیش بیرونی خطرات، دہشت گردی اور عدم استحکام کا خاتمہ ہو جائے گا اور ان سب کے لیے وہ گزشتہ 72 سال سے ’’امید سے‘‘ ہیں۔ ان برسوں میں انہوں نے سیاسی اور حکومتی نظام میں بے شمار اسقاط حمل، قبل از وقت زچگیوں اور غیر فطری و قبل از وقت اموات ہی نہیں بلکہ 29 سال تک جنگل کے قانون اور اب گیارہ سال سے لگاتار جمہوری نظام کا مشاہدہ کیا ہے۔ نجانے پھر بھی یہ غریب غُربا کیوں امید سے ہیں؟