کسی بھی زبان کی اہمیت، افادیت اور اس کے مقام کو متعین کرنے میں تخلیق، تنقید اور تحقیق،تین ایسے عناصرہیں جو بنیادی ستونوں کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ اولاً ادیب یا شاعر اپنی تخلیق منصہ شہود پر لاتا ہے۔دوم نقاد اس تخلیق کو پرکھتا ہے، جانچتا ہے اور اس کے تخلیقی ہونے پر اپنی رائے قائم کرتا ہے جب کہ محقق تخلیقات کا تحقیقی جائزہ لے کر اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے۔اگرچہ مطالعہ ومحاسبہ کے ان گنت دیگر پہلو بھی ہیں لیکن مذکورہ تین بنیادی تصور کیے جاتے ہیں۔
راقم الحروف کا موضوعِ تحقیق”پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی-شخصیت،فن اور ادبی خدمات“ہے۔ اردو تحقیق وتنقید میں پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ایک معتبر اور مستند نام ہے۔ان کی علمی او ادبی خدمات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فی زمانہ بہت کم محققین ایسے ہیں جنہوں نے اس کثرت سے تحقیقی کارنامے سر انجام دیے ہوں۔اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے دورِ حاضر میں ادیبوں کے لیے اقدار وروایات کی ایک مثال قائم کی ہے، تو بے جانہ ہوگا۔ ڈاکٹر صمدانی عصرِ حاضر کے ان محققین اور ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی تحقیقی وتخلیقی تصنیفات نے محض اردو تحقیق کو نئے امکانات ہی سے روشناس نہیں کرایا بلکہ اردو شعر وادب اور ادباء و شعراء کے حالاتِ زندگی اور تخلیقات کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا ہے۔انہوں نے نہ صرف مقبول ادیبوں اور شاعروں پر قلم اٹھایا ہے بلکہ گمنام شخصیتوں کو منظرِ عام پر لانے کا فریضہ بھی سر انجام دیا ہے، جو پچھلے زمانے میں آنے والوں کے لیے تحقیق وتنقید میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔
زیرنظر تصنیف 10 ابواب پر مشتمل ہے۔بابِ اوّل ”پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی شخصیت،فن اور ادبی خدمات“ہے جوتصنیف کا عنوان بھی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی 40سے زیادہ تصانیف و تالیفات اور 1000سے زائد مضامین،کالم، تقاریظ و مقدمات اور پیشِ لفظ وتبصرے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ان کی شخصیت کی ہمہ جہتی نے مجھے گویا اپنی طرف کھینچ لیا اور میں نے ”پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی شخصیت،فن اور ادبی خدمات“ کا موضوع منتخب کرکے اس تحقیقی کام کو پایائے تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔میں نے اس تصنیف میں پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی شخصیت،فن اور ادبی خدمات کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سلسلے میں خود پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کا تعاون مثالی رہا کہ جب بھی ان کی کسی کتاب کی ضرورت پڑتی وہ مجھے اس کی پی ڈی ایف کاپی بھیجتے رہے اور یوں اس کام کے مکمل کرنے میں ان کا کردار مثالی بھی رہا اور کلیدی بھی۔اگرچہ میں نے پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی شخصیت، فن اور ادبی خدمات کو منصہ شہود پر لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا باوجود اس کے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ یہ تحقیق حرفِ آخر ہے کیونکہ ان کی تحقیقی و تخلیقی سرگرمیاں ابھی جاری ہیں۔اس مقالے کی تکمیل میں ادبی مجلہ ”سلسلہ“ کے مدیر جناب مرتضیٰ شریف صاحب، بقائی یونیورسٹی شعبہ نشرواشاعت کے ڈائریکٹر جناب سید محمد ناصر علی کا تعاون حاصل رہا جس کے لیے ان کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔آخر میں مجھے اپنی اہلیہ محترمہ سیّدہ ایف گیلانی کا ذکر کرنا ہے کہ جن کے تعاون کے بغیر یہ کام پایہئ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے بچوں اسما، اسامہ، قتادہ، سمیت اور احتشام کے تعاون پر ان کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دین ودنیا کی کامیابیاں عطا فرمائے۔