Get Alerts

انکم ٹیکس قانون کو سادہ ہونا چاہیے

انکم ٹیکس قانون کو سادہ ہونا چاہیے
2001 میں جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر نیا انکم ٹیکس قانون نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر بہت سے لوگوں نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس یہ قانون بنانے کا اختیار نہیں۔ اس نکتے پر بھی زو ر دیا گیا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے انکم ٹیکس قانون کا نفاذ آئین کے آرٹیکل 77 کی خلاف ورزی ہے جو ایک جانے پہچانے اصول ۔۔۔''نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں ‘‘ ۔۔۔کی روح کے مطابق ہے۔ تاہم جنرل مشرف نے احتجاج اور آئین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 جاری کردیا اگرچہ اس ٹیکس کا نفاذ سال 2003 سے ہونا تھا اور اس کام کو  آنے والی منتخب حکومت پر چھوڑا جا سکتا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے جنرل مشرف نے ضیا الحق کی یاد تازہ کردی جنھوں نے انکم ٹیکس آرڈیننس 1979 نافذ کیا تھا۔

افسوس کی بات یہ کہ خلاف آئین اور غلطیوں پر مبنی قانون کو  چارمنتخب شدہ حکومتوں نے بھی برقرار رکھا ہے۔ 2003 سے 2008 کے دوران پی پی پی کی مخلوط حکومت سے لے کر موجودہ پی ڈی ایم  حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 پر نظر ِ ثانی کی زحمت تک نہیں کی۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اپنے درج ذیل فیصلے میں ایسا کرنے کی ہدایت کی تھی:

(CIT v Ely Lilly & Others 2009 PTR 23)

قیام ِ پاکستان سے لے کر اب تک ہم ایسا کوئی انکم ٹیکس ایکٹ منظور نہیں کرسکے ہیں جسے اسمبلی میں زیر ِ بحث لایا گیا ہو۔ اب تک جاری کیے گئے دونوں آرڈیننسوں کا نفاذ مارشل لاء ادوار میں ہوا۔ آئینی صورت یہ ہے کہ جس آرڈیننس کو اسمبلی میں پیش نہ کیا جائے تووہ چار ماہ کے بعد غیر موثر ہوجاتا ہے۔ اگر اسمبلی اسے منظور کرلے تو پھر یہ ایکٹ بن جاتا ہے اور اس کی آرڈیننس کی حیثیت منسوخ ہوجاتی ہے۔ یہ پہلو ظاہر کرتا ہے کہ آئین، قانون ساز ادارے کو پابند کرتا ہے کہ وہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون سازی کرے۔ تاہم مذکورہ آرڈیننس کا نفاذ متنازع تھا کیونکہ اس پر اسمبلی میں بحث نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ سے متعلقہ محکمے اسے مختلف عدالتوں میں چیلنج کرنے پر مجبور ہوگئے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 اس قدر متنازع ہے کہ اس میں گزشتہ بیس سال کے دوران تین ہزار سے زیادہ مرتبہ ترمیم ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ سے عدالتوں میں بہت سے کیسز دائر کیے گئے اور کنفیوژن نے جنم لیا۔

اس کی تفصیل Law & Practice of Income Tax, Volume (I) کی دستاویز میں دیکھی جاسکتی ہے۔

چونکہ پارلیمنٹ اور ایف بی آر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے فریم ورک میں موجود متنازع امور کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ اس لیے سپریم کورٹ کا 2009 کا حکمنامہ آنے تک اربوں روپے کے محصولات ضائع ہوچکے تھے۔ فاضل عدالت نے لکھا۔۔۔''ایسا لگتا ہے کہ اس آرڈیننس کو جلد بازی میں ڈرافٹ کرتے وقت اہم شقوں کو حذف کردیا گیا۔ اس کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ بنائے جانے کے وقت سے ہی اس آرڈیننس میں نہایت سرعت سے لگاتار ترامیم کرنے کی مشق کو روا رکھا گیا۔

یہ بات قابل ِ غور ہے کہ سیکشن 238 کے مطابق آرڈیننس کا نفاذ اُس تاریخ سے عمل میں آ ناہے جس دن وفاقی حکومت سرکاری گزٹ میں اس کا نوٹیفکیشن جاری کردے۔ چنانچہ یہ نوٹیفکیشن (SRO No. (381(I)/2002) 16 جون 2002 کو جاری ہوا اور یکم جولائی سے نافذ العمل سمجھا گیا ۔ تاہم اگر اس آرڈیننس میں ایک ہزار سے زائد ترامیم نہ کی گئی ہوتیں تو شاید اس کی حتمی تاریخ کا تعین کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آتی۔

CIT v Ely Lilly & Others 2009 PTR 23 [Para 53] میں سپریم کورٹ نے بہت وضاحت سے کہا۔۔۔''اس کی زبان، مواد اور دائرہ ِ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی غلطیوں کو دور کیا جاسکے اور اسے اس قابل بنایا جائے کہ عام ٹیکس دہندگان بھی اسے سمجھ سکیں۔ ‘‘ 22 جون 2009 کو آنے والے اس فیصلے نے آئین کے آرٹیکل 189 کے مطابق حکومت کوپابندکیا لیکن تاحال اس پر عمل نہیں ہوا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے گورکھ دھندے کی وجہ سے فی الحال ایف بی آر ٹیکس دہندگان کی سہولت کے لیے کچھ نہیں کرسکا''۔

اس پس ِ منظر میں  سابقہ حکومت کی طرف سے ایک حوصلہ افزا پیش رفت دیکھنے میں آئی  کہ اس نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا  تاکہ نیا اور سادہ تر انکم ٹیکس قانون بنایاجاسکے۔افسوس کی بات ہے کہ پارلیمنٹ  نے ابھی تک اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی-

ضرورت اس بات کی ہے کہ  بنائے جانے والے نئے انکم ٹیکس قانون میں  موجودہ کم ازکم ٹیکس کی حد ، رعایت ، چھوٹ اور خود تشخیص کی سہولت  پر نظر ثانی کی جائے اور ہر طرح  کے تضاد کو ختم کیا جائے۔

Taxpayers' Bill of Rights کے تحت  ٹیکس دہندگان کو حق دیا جائے کہ وہ جا ن سکیں کہ ان کا  ادا کردہ ٹیکس کسی مخصوص طبقے کی عیش عشرت کی بجائے عوامی فلاح کے کاموں پر خرچ ہوگا اور ایک آزاد اور خود مختار ٹیکس ایپلیٹ سسٹم اس پر نظر رکھے گا۔ اس نئے انکم ٹیکس قانون کو جلد از جلد بنانے کے لیے بھر پور کوششوں کی ضرورت ہے۔ نئے انکم ٹیکس قانون کو مندرجہ معروضات کا حامل ہونا چاہیے:

1۔ ٹیکس نظام کو  آئین کے آرٹیکل 3 کے کے تحت لایا جائے۔

2۔مختلف درجہ بندیوں  پر  یکساں ٹیکس نافذ کیا جائے۔

3۔ بالواسطہ ٹیکسز پر انحصار کم سے کم کیا جائے۔

4۔ عوام کو ٹیکس کی ادائیگی کا پابند بنایا جائے۔

5۔ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ٹیکس وصول کرنے کی روایت ختم کی جائے۔

6۔ ٹیکس میں چھوٹ دینے کے عمل کو کم کیا جائے۔

7۔ نیشنل ٹیکس کورٹ ، جو سپریم کورٹ کے تحت کام کرے، کا قیام عمل میں لایا جائے۔

8۔ ٹیکس قوانین میں موجود  تمام استثنیٰ  اوربھول بھلیوں کو ختم کرکے اسے مربوط اور سادہ بنایا جائے۔

اگر ہم ٹیکس کانظام بہتر کرنا چاہتے ہیں تو یہ قانون سازی ناگزیرہے۔ بلاواسطہ ٹیکسز کا مقصد ریونیو میں اضافہ ہوتا ہے تاکہ سماجی اور معاشی سروسز کے لیے زیادہ رقم میسر آسکے لیکن اس پر کلی انحصار درست نہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس کے نظام میں پیچیدگیاں جہاں عام ٹیکس دہندگان کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہیں، وہاں ٹیکس چوروں کے لیے بہت سے راستے بھی کھول دیتی ہیں۔اسے وصول کرنے کے لیے بھاری بیوروکریسی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے بدعنوانی کا راستہ بھی کھل جاتا ہے اورشہریوں کے سر پر خوف کی تلوار بھی لٹکی رہتی ہے۔ درحقیقت اب وقت آگیا ہے کہ ٹیکس کے نظام کو سادہ کرکے ریاست کے محصولات میں اضافہ کیا جائے۔ ٹیکس کے نئے نظام کے ذریعے بچت کرنے اور مختلف سکیموں میں، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی سکیموں میں سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔