بھنسالی کی 'ہیرا منڈی' سے بالی ووڈ میں مسلم کلچر کی واپسی ہوئی

ہیرا منڈی کو سنجے لیلا بھنسالی کا لاہور کیلئے خراج تحسین بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح انہوں نے لاہور میں مسلم کلچر، مزاحمتی سیاسی سوچ اور اردو زبان و ادب کو دکھایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ سنجے لیلا بھنسالی کا سکول آف تھاٹ منفرد ہے اور ہیرا منڈی اسی منفرد سوچ کا تسلسل ہے۔

بھنسالی کی 'ہیرا منڈی' سے بالی ووڈ میں مسلم کلچر کی واپسی ہوئی

پچھلے چند سالوں سے جب بھارت میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہوئی ہے ان کی مقبولیت کا اثر بالی ووڈ کے سنیما، ٹی وی اور او ٹی ٹی پر ریلیز ہونے والی فلموں، ڈراموں اور ویب سیریز پر بہت پڑا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر کی تاریخ مزاحمتی کرداروں سے بھری پڑی ہے اور مسلم حملہ آوروں کے خلاف ہندو مہاراجوں نے شدید مزاحمتی کردار ادا کیا۔ پرتھوی راج چوہان، تانا جی اور شیوا جی اس کی بہترین مثالیں ہیں مگر جب انگریز سرکار نے برصغیر پر قبضہ کیا تو ہندو، سکھ اور مسلمانوں نے یکجا ہو کر تاجدار برطانیہ کے خلاف جدوجہد شروع کر دی تھی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ 2014 کے بعد آہستہ آہستہ بالی ووڈ کی فلموں، ڈراموں اور ویب سیریز میں صرف ہندو مزاحمتی کرداروں پر ہی فوکس کیا گیا۔ اردو زبان اور مسلم مزاحمتی کرداروں کو پس پشت ڈال دیا گیا مگر اس سال اس نکتہ نظر سے ہٹ کر دو ایسے او ٹی ٹی پروجیکٹ سامنے آئے جن کے ذریعے ایک بار پھر برصغیر کے مسلم کلچر، اردو زبان اور مسلم مزاحمتی کرداروں کو سکرین پر پیش کیا گیا۔ ایک تو گریٹ فلم ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کا ڈریم پروجیکٹ ویب سیریز 'ہیرا منڈی' ہے جو نیٹ فلکس پر ریلیز ہو چکا ہے اور دوسرا امیزون پرائم پر ڈائریکٹر کنان ایئر کی فلم ' اے وطن میرے وطن' ہے۔

پہلے ہیرا منڈی کی بات کرتے ہیں۔ اسے سنجے لیلا بھنسالی کا لاہور کو خراج تحسین بھی کہا جا سکتا ہے کہ کس طرح لاہور میں مسلم کلچر، مزاحمتی سیاسی سوچ اور اردو زبان و ادب کو دکھایا گیا ہے۔ سنجے لیلا بھنسالی کا سکول آف تھاٹ منفرد ہے۔ وہ کوٹھے اور طوائف کو اپنے انداز سے پیش کرتے ہیں۔ چاہے دیوداس میں کولکتہ کا طوائف کلچر ہو یا اب لاہور کا کوٹھا ہو، سنجے لیلا بھنسالی اسے اپنے وژن، اپنی سوچ اور اپنے مکتبہ فکر کے تحت ہی سکرین پر دکھاتے ہیں۔ ہیرا منڈی بھی اسی سوچ کا تسلسل ہے۔

سنجے لیلا بھنسالی نے بڑے فریم بڑی مہارت سے شوٹ کیے ہیں اور مسلم ثقافت، نواب، طوائف اور اردو زبان کو بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا۔ جب آپ بڑے سکیل پر کام کرتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہو جاتی ہیں مگر مجموعی طور پر بڑی تخلیق میں ان کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ لاہور کے اردو زبان والے کلچر پر اعتراض کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اردو زبان اگرچہ لکھنؤ سے نکلی تھی مگر اس کی ترویج لاہور میں ہی ہوئی۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

1920 سے ہی لاہور شہر سے اردو کے اخبارات، رسائل، جریدے اور کتابیں شائع ہونی شروع ہو چکی تھیں اور کیسا کیسا بڑا شاعر یہاں موجود تھا مثلاً عدم، اقبال، اختر شیرانی، فیض احمد فیض وغیرہ۔ پھر فکشن لکھنے والوں میں سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی بھی لاہور سے اپنی تخلیقات شائع کراتے تھے۔ راقم کا بچپن ہیرا منڈی کے مختلف کرداروں کے ساتھ گزرا ہے۔ ان کو اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں بات کرنا آتی ہے اور لاہور شہر ان دونوں زبانوں کا ہے لہٰذا یہ بات ہی فضول ہے۔

ہیرا منڈی کے سکرپٹ رائٹر معین بیگ، دیویا نندن، وہیو پوری اور سنجے لیلا بھنسالی ہیں۔ سنجے لیلا بھنسالی ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے تاجدار برطانیہ کے خلاف مسلم مزاحمتی سیاسی سوچ کو مہارت سے شوٹ کیا ہے۔

دوسری فلم ' اے وطن میرے وطن' ہے جس کے ڈائریکٹر کنان ایئر اور سکرپٹ رائٹر دراب فاروقی ہیں۔ یہ فلم بھی تاجدار برطانیہ کے خلاف ہندو مسلم اتحاد کی مشترکہ جدوجہد پر ہے جس میں مسلم مزاحمتی سیاسی سوچ کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

پچھلے دنوں یش چوپڑا کے بیٹے نے کہا تھا کہ والد یش چوپڑا گریٹ فلم ڈائریکٹر ہمیں اُردو زبان سیکھنے کو کہتے تھے کیونکہ اردو زبان، سکرپٹ اور فلمی گیت نگاری اچھی ہوتی تھی۔ آج اگر بالی ووڈ کی فلموں میں سکرپٹ اور گیت نگاری روبہ زوال ہے اس کی بنیادی وجہ اردو زبان سے دوری ہے۔ اس صورت حال میں 'ہیرا منڈی' جیسی ویب سیریز اور ' اے وطن میرے وطن' جیسی فلم کا آنا خوش آئند ہے۔ بالی ووڈ کے مسلم سپر سٹارز شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان کو بھی انہی نکات پر فلمسازی کرنی چاہیے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔