عام آدمی کو نوازشریف کی بیماری اور سیاسی مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ عمران خان کے بیانیہ سے کوئی واسطہ ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ ٹماٹر اور پیاز کی قیمت ہے۔ روزگار، بجلی اور گیس کے بل، گھر کا کرایہ اور بچوں کی فیس ہے۔ عام آدمی 1947 سے لے کر 2019 تک یہی سیاسی تماشے دیکھ رہا ہے۔ ملکی تاریخ کا نوازشریف ایپی سوڈ (قسط) کوئی پہلا نہیں ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے۔ فیروز خان نون کا، سکندر مرزا کا اور جنرل پرویز مشرف کا، جو بلاتعطل جمہوریت کے چند وقفوں (شارٹ بریک) کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ بدگمانی ہے کہ جاری رہے گا۔
وطن عزیز میں تو یہ کلچر ہے کہ نئی حکومت کے بننے کے ساتھ ہی گرانے کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اپوزیشن کا تصور ہی نہیں ہے، کردار ہی نہیں ہوتا ہے۔ ملکی ترقی اور عوامی مسائل سے اب پیپلزپارٹی کو بھی سروکار نہیں رہا ہے۔ پیپلزپارٹی میں قدرے سیاسی اقدار ہیں مگر بلاول کی سیاست خلفشار سے دوچار ہے۔ وہ نظریاتی اور ترقی پسندی سے ابھی دور ہیں۔
شریف برادران کاروباری لوگ ہیں۔ سیاست بھی کاروباری طریقے سے کرتے ہیں۔ نفع و نقصان دیکھتے ہیں بلکہ منافع پر منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔ مریم نواز کو پنجاب کی بےنظیر کہنے والے اور نوازشریف کو مزاحمت کا استعارہ قرار دے کر بھٹو سے بڑا لیڈر قرار دینے اور یہ کہنے والے کہ عوام بھٹو کو بھول جائیں گے اور قائد عوام نوازشریف کا نام یاد رکھیں گے، ہو سکتا ہے انہیں اب شرمندگی کا سامنا ہو۔
سیاسی کارکنان اور سیاسی تجزیہ کاروں کو بہرحال پوری طرح اس امر سے واقف ہونا چاہیے کہ سیاست دان کون ہوتا ہے اور کس کے خمیر میں مزاحمت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ حبیب جالب اور فیض احمد فیض کے شعر پڑھنے سے کوئی انقلابی نہیں بن جاتا۔ غم و غصے کا شکار ہو کر کوئی ووٹ کو عزت دینے کی بات کہہ دے تو وہ مزاحمت کار یا مزاحمت کا استعارہ نہیں کہلائے گا۔
سیاست گالی گلوچ، مخالفین کے خلاف طعنہ بازی، الیکشن جتنے اور اقتدار میں آنے کا نام نہیں ہے۔ سیاست نظریات کا نام ہے۔ نظام کا نام ہے۔ شریف برادران کے پورے خانوادے میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے۔ جس کو کسی نظریے اور نظام کے بارے میں معلوم ہو۔ شریف برادران سے ووٹ کو عزت دو کی جدوجہد کی توقع کرنا اور مزاحمت کی امید رکھنا صرف خود فریبی اور غلط فہمی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
سیاست کا یہ عہد قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ نئی قیادت کی تراش اب براہ راست عساکر نے اپنے ذمہ لی ہے۔ طلبہ یونین، ٹریڈ یونین سیاسی جماعتیں اب قیادت کی تعمیر سے بری الذمہ ہیں۔ مراد سعید ابھرے ہیں مگر مراد سعید جیسا حوصلہ اور ہمت ہر کوئی نہیں کر سکتا ہے۔
آج اگر یہ حالات ہیں تو ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مقتدرہ کام نہیں کرنے دیتی ہے۔ سیاستدانوں نے خود اقتدار کے لئے عسکری مقتدرہ کا سہارا لیا ہے۔ نوازشریف اور عمران خان زندہ مثالیں ہیں۔ جنہوں نے اقتدار کی خاطر ووٹ کی عزت کو پامال کیا ہے۔ ووٹ کی عزت خود پامال کرنے والے ووٹ کی عزت کے لئے جدوجہد نہیں کرتے ہیں بلکہ راہ فرار کے لئے پھر سے ووٹ کی عزت برباد کرتے ہیں تاکہ اپنی جان بچا کر بھاگ سکیں۔
پاکستان کے عوام نے ووٹ کو عزت دو سے مجھے اجازت دو کا نواز شریف کا سفر کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ آگے عمران خان کی باری ہے کہ وہ قوم یوتھ کی امیدوں پر کس حد تک پورا اترتے ہیں۔ ریاست مدینہ اور نیا پاکستان کیسے بناتے ہیں۔