توشہ خانہ سے آنے والے تحائف سے متعلق بشریٰ بی بی اور بنی گالا کے سابق انچارج سید انعام اللہ شاہ کی ایک آڈیو لیک ہوئی تھی جس کے بارے میں تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ یہ بشریٰ بی بی کو بدنام کرنے کی محض ایک سازش ہے، لیکن جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انعام اللہ شاہ نے کہا کہ یہ آڈیو حقیقی ہے۔ مزید انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ سے تحائف بنی گالا آتے تھے اور امیر لوگوں سے تحائف منگوائے بھی جاتے تھے۔ میرے فون میں آڈیو اور توشہ خانہ سے آنے والی چیزوں کی تصاویر صرف اس لیے موجود ہوتی تھیں کہ میں ہر آنے اور جانے والی چیز کا ریکارڈ رکھ سکوں۔ بشریٰ بی بی کو مجھ پر شک ہوا کہ شاید میں تصاویر کسی کو بھجواتا ہوں تو انہوں نے مجھے پہلے بنی گالا انچارج کی ذمہ داری سے ہٹایا، پھر وزیر اعظم ہاؤس کے کمپٹرولر عہدے سے بھی ہٹا دیا۔
سید انعام اللہ شاہ نے کہا کہ بنی گالا اور تمام حکومتی معاملات میں بشریٰ بی بی اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ زلفی بخاری بشریٰ بی بی کے زیادہ قریب تھے، پھر زلفی بخاری اور بشریٰ بی بی میں ناراضگی ہو گئی اور میں ان دونوں کے درمیان پیغام رساں کا کردار ادا کرنے لگا۔ بشریٰ بی بی کو جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان سے کافی احساس کمتری تھا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کی مقبولیت عمران خان کی وجہ سے تھی، اس لیے انہوں نے عمران خان کو جہانگیر ترین سے دور رہنے کی تاکید کی۔
سید انعام اللہ شاہ نے مزید کہا کہ عون چودھری اور میں عمران خان کی حلف برداری کے دعوت نامے تقسیم کرتے رہے تھے اور عمران خان کی حلف برداری سے ایک رات پہلے بشریٰ بی بی نے کال کر کے کہہ دیا کہ حلف برداری تقریب میں عون چوہدری شریک نہیں ہوں گے کیونکہ بشریٰ بی بی کو خواب آیا تھا کہ عون چوہدری عمران خان کے لیے بدشگون ثابت ہوں گے۔ بشریٰ بی بی کو لگتا تھا کہ عون چوہدری عمران خان سے زیادہ عبدالعلیم خان کے وفادار ہیں۔
پنجاب پر بشریٰ بی بی اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا۔ بزدار کو بنی گالا میں احسن گجر لائے تھے اور فرح گوگی کے ساتھ بشریٰ بی بی مسلسل رابطے میں رہتی تھیں۔ کسی بھی تقرری سے پہلے بشریٰ بی بی امیدواروں کی تصاویر منگواتی تھیں اور تصاویر دیکھ کر تمام فیصلے کیے جاتے تھے۔ عمران خان تمام حکومتی معاملات میں بشریٰ بی بی کی رائے کو خاص اہمیت دیتے تھے۔
بنی گالا میں عمران خان کے پرانے ملازمین کے ساتھ بشریٰ بی بی کا یہ رویہ تھا کہ ایک ملازم جو تقریباً 25 سال سے عمران خان کے ساتھ کام کر رہے تھے ان کے لیے مجھے کال آتی ہے کہ انہیں فوراً ملازمت سے فارغ کر دیا جائے اور کہا جائے کہ ابھی اپنا سامان یہاں سے لے کر چلے جائیں ورنہ باہر پھینک دیا جائے گا۔ اگلے دن جب عمران خان کو پتہ چلا کہ ان کے دیرنیہ ملازم کو نکال دیا گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ ضرور آئے گا لیکن وہ ملازم دوبارہ نہیں آیا۔
عمران خان بشریٰ بی بی کے ہر فیصلے پر لبیک کہتے تھے اور ان کی مرضی کے بغیر بنی گالا میں کوئی کام نہیں کیا جاتا تھا۔ کالے بکرے کے سوا کلو گوشت پر عمران خان کا صدقہ دیا جاتا تھا اور منگل بدھ کو مرغی کے گوشت کا صدقہ دیا جاتا تھا۔ اکثر بکرے کی سری کو قبرستان میں بھی پھینکا جاتا تھا۔ بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ قبرستان میں سری پھینکنے سے کیڑے مکوڑوں کو بھی رزق مل جائے گا۔
سید انعام اللہ شاہ نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر اور ان کے بچے کبھی بنی گالا نہیں آئے لیکن فون پر سب رابطے میں ہوتے تھے۔ بشریٰ بی بی کی ایک چھوٹی بیٹی اکثر ان سے ملنے آ جاتی تھی۔ بشریٰ بی بی پنجاب پر اپنا کنٹرول چاہتی تھیں چونکہ ان کے سابق شوہر اور بچے پنجاب میں تھے تو وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوں گے۔
سید انعام اللہ شاہ نے بتایا کہ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے تمام مالیاتی اکاؤنٹس کو بھی دیکھتا تھا، بشریٰ بی بی نے انہیں کیش 3 کروڑ عمران خان کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے کے لیے دیے، میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ کہہ دینا کہ گھر کی چیزیں بیچ کے جو رقم ملی ہے وہ یہ ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ جس دن توشہ خانہ کی گھڑی بیچی گئی اور جو رقم میں نے بینک میں جمع کروائی، ان دونوں کی تاریخ ایک ہی تھی۔
قصہ مختصر عمران خان بنی گالا میں ہونے والی تمام کارروائیوں کو خاموشی سے دیکھتے رہے اور بشریٰ بی بی سب کو بندر کا ناچ نچواتی رہیں۔ سید انعام اللہ شاہ کا کہنا ہے کہ ہو بھی سکتا ہے عمران خان پر کوئی روحانی اثر ہو لیکن اس سے متعلق کچھ بھی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔