ویسے تو دھرنے کی تاریخ کچھ اچھی نہیں رہی ہے۔ تاریخ میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت سے ہٹانے کے لیے بھی ان کے گھر کے باہر دھرنا دیا گیا اور پھر بلوائیوں کے ذریعے انہیں شہید کر دیا گیا۔
اس دھرنے کے پیچھے کچھ منافقین اور سازشی اسلام دشمن عناصر شامل تھے جنہوں نے لوگوں کے جذبات بھڑکا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جس کے نتیجے میں شروع ہونے والا مسلمانوں کا زوال کربلا تک جا پہنچا جس کے بعد سے آج تک مسلمان تنزلی کا شکار ہیں۔
اگر ماضی قریب میں دیکھا جائے تو مِصر میں بھی دھرنوں کے ذریعے تبدیلی کا تجربہ ناکام رہا ہے اور پھر لیبیا میں بھی قذافی کے خلاف احتجاج کو بھڑکا کر لیبیا پر حملہ کر کے تبدیلی لانےکا عمل بری طرح ناکامی سے دوچار ہے عراق بھی بد امنی کا شکار ہے, پاکستان میں بھی 2014 کا دھرنا جزوی طور پر ناکام رہا لیکن چونکہ پاکستان میں اب تک ہونے والے دھرنوں کے پیچھے کچھ مقتدر قوتیں تھی جس کی وجہ سے دھرنا ناکام تو ہو گیا لیکن میڈیا پر بلاروک ٹوک مسلسل 126 دن کا پروپیگنڈا ایک پوری نسل کو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔
ان میں وہ نا پختہ ذہن خصوصی نشانہ تھے جو 2014 کے دھرنے کے وقت 15 سے 25 سال کی عمر میں تھے اور 2018 کے الیکشن تک اپنا ووٹ رجسٹرڈ کروا چکے تھے اسی ووٹ نے عمران کی منزل کو آسان کیا یہی وجہ ہے کہ جب بھی مقتدر حلقےاقتدار اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں یا کسی جمہوری حکومت سے ناخوش ہوتے ہیں تو سب سے پہلے میڈیا کو کنٹرول کر کے مرضی کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے یا قدغنیں لگائی جاتی ہیں کیونکہ 60 فیصد لوگ صرف وہی دیکھتے ہیں جو انہیں دکھایا جاتا ہے، وہی سوچتے ہیں جو وہ سنتے ہیں کیونکہ پروپیگنڈا اپنا اثر رکھتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا مارچ اس لحاظ سے منفرد ضرور ہے کہ اس کے پیچھے بظاہر مقتدر قوتوں، اسلام دشمن یا ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ نظر نہیں آتا بلکہ اس مارچ کی سیدھی سی وجہ وہ ہاتھ ہے جو مولانا کے ساتھ الیکشن میں ہوا اسی وجہ سے مولانا کا یہ مارچ میڈیا کے پروپیگنڈے کی طاقت سے محروم ہے، ویسے یہ ہاتھ دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی ہوا لیکن دوبارہ اقتدار میں آنے کی خواہش انہیں کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے روکے ہوئے ہے۔
مسلم لیگ ن نے اس مارچ میں حاضری لگانے کا اعلان تو کیا ہے لیکن شامل ہونے سے گریزاں نظر آتی ہے میری نظرمیں حاضری اور شمولیت میں بڑا فرق ہے۔
بساط کچھ اس طرح بچھائی گئی ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے دھرنے میں شامل نہ ہونے کا جواز موجود ہے کہ وہ تو اپوزیشن میں ہونے اور 2013 کےالیکشن کوآر اوز کا الیکشن کہنے کے باوجود عمران خان کے دھرنے کے بھی خلاف رہے ہیں اس لیے ان کی عدم شرکت کو اصولی مؤقف تسلیم کیا جائے جبکہ حقیقت میں اصولی مؤقف سے زیادہ یہ کسی یقین دہانی کا نتیجہ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اب شفاف الیکشن کے ذریعے وہ کبھی اقتدار حاصل نہیں کر سکتی۔
اس لئے شفاف الیکشن کے لئے دھرنا چاہے عمران کا ہو یا مولانا کا پیپلزپارٹی کے لئے اس میں شمولیت کا کوئی فائدہ نہیں اور ن لیگ کے پیش نظر یہ بات ہے کہ اگر وہ مقتدر قوتوں کے خلاف سخت مؤقف رکھتے ہیں تو مقتدر قوتوں کے پاس تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر دو آپشن رہ جاتے ہیں، مارشل لا یا پھر پیپلزپارٹی، 'اس لیے ن لیگ بھی ٹھنڈا گرم پالیسی پر ہی گامزن ہے یعنی جو جیل میں ہیں وہ سخت مؤقف رکھتے ہیں جو باہر ہیں وہ ٹھنڈے پڑے ہیں، اندر والے مارچ میں شمولیت چاہتے اور باہر والے مارچ میں صرف حاضری لگوا کر اپنے ورکرز کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان بھی یہ بات جانتے تھے کہ شفاف الیکشن کی صورت میں ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں لیکن پھر بھی وہ دھاندلی کا شور مچاتے رہے اور الیکشن کے عمل میں اصلاحات کے حوالے سے غیر سنجیدہ رہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دھرنے کا مقصد کبھی بھی شفاف انتخابات کا انعقاد نہیں تھا بلکہ دھرنے کا مقصد پروپیگنڈا کرنا اور دھاندلی کے تمام ممکنہ حربوں کو اپنے خلاف استعمال ہوتا دکھانا تھا تاکہ جب حقیقت میں وہی حربے ان کے حق میں استعمال ہوں تو شیر آیا شیر آیا والی صورت حال بن جائے اور جب حقیقت میں شیر آجائے تو لوگ یہ سوچ کر سوتے ہی رہ جائیں کہ یہ شور تو روز ہی ہوتا ہے شیر تو کبھی پکڑا نہیں جاتا۔
اگر بغور دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی نے جب بھی اقتدار حاصل کیا تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی گرتی ہوئی ساکھ کو کاندھا دینے کے صلے میں حاصل کیا 1971 میں جب پاکستان دولخت ہوگیا تو مقتدر قوتوں کی ساکھ بہت متاثر ہوچکی تھی اور بھٹو کو اقتدار دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا پھر 1977 کے بعد جب 1988 میں اقتدار ملا تو ساتھ جہیز میں صدر غلام اسحاق خان قبول کرنا پڑا اس کے بعد جب نواز شریف وزیراعظم بنے اور انہوں نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی تو مقتدر حلقوں سے تعلقات خراب کر بیٹھے نتیجے میں غلام اسحاق خان اور نواز شریف دونوں فارغ ہوگئے جسکے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر مقتدر حلقوں کو پیپلز پارٹی کے کاندھے کی ضرورت پڑی تو بے نظیر دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں اور تیسری مرتبہ پیپلز پارٹی کو تب اقتدار نصیب ہوا جب مشرف بگٹی قتل کیس، لال مسجد آپریشن، لوڈ شیڈنگ، بدامنی اور دہشت گردی اور افتخار چوہدری کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے انتہائی غیر مقبول ہوچکے تھے، مشرف کی ساکھ اتنی خراب ہو چکی تھی کہ وہ اپنے ادارے کے لئے بھی بوجھ بن گئے تھے یہ بوجھ ہی تھا جس نے میڈیا کو مشرف کے کنٹرول سے باہر کردیا تھا اس وقت افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکہ کا بہت اثر رسوخ تھا اور نواز شریف امریکہ اور مقتدر قوتوں کو یکساں طور پر ناقابل قبول تھے۔
یہی وجہ تھی کہ بے نظیر نے گرم لوہے پر چوٹ ماری اور امریکہ کی مدد سے مشرف کے ساتھ معاملات طے کر لیے، جس کے نتیجے پیپلز پارٹی کو تیسری مرتبہ اقتدار ملا اگر بے نظیر کو کھلا میدان مل جاتا تو وہ دو تہائی نشستیں حاصل کر سکتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کے انہیں الیکشن کے بعد پاکستان آنے کا کہا گیا وہ پہلے آ گئیں جس کے نتیجے میں ان کے سیاسی مخالف نواز شریف کو بھی آنے کی اجازت دے دی گئی، یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو کا انگریزی فارمولا استعمال کیا گیا لیکن مسئلہ ابھی بھی حل نہ ہوا میثاق جمہوریت کی وجہ سے یہ فارمولا بھی فیل ہوتا نظر آرہا تھا۔ پھراچانک بے نظیر نے لیاقت باغ کے باہر سرعام اپنے سر میں گولی مار کر خودکشی کرلی کیونکہ ان سے عالمی طاقتوں کی بے بسی دیکھی نہیں جارہی تھی (یہ طنزیہ جملہ ہے جس کا مطلب علم والے لوگ سمجھ سکتے ہیں) اور پھر زرداری کی صورت میں متبادل سامنے آ گیا جو نواز شریف کے بنائے ہوئے کیسز کی وجہ سے 10 سال بغیر سزا کے جیل کاٹ چکا تھا اس طرح تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے میں کچھ جان آ گئی اور ججز کی بحالی تاخیر کا شکار ہوگئی اور پھر سے نواز شریف کو پی سی او ججز کے ذریعے نااہل کروانےکی کوشش کی گئی آگے آپ خود سمجھ دار ہیں اور سارے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔
اب ایک مرتبہ پھر صورت حال پیپلز پارٹی کے لیے سازگار بنی ہوئی ہے تحریک انصاف کی حکومت اور اسے لانے والے سہولت کار دن بدن اپنی ساکھ کھو رہے ہیں اور ن لیگ سے انہیں یہ خوف ہے کہ اگر انہیں بغیر ڈیل کہ اس وقت اقتدار حاصل کرنے دیا گیا تو کہیں ان سے انتقام نہ لیا جائے جیسا کہ مشرف پر بھی نواز شریف نے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ بنایا اور ماضی میں بھی کارگل کمیشن بنانے کی کوشش کی اس لیئے اب صرف پیپلز پارٹی یا مارشل لا دونوں میں سے ایک آپشن مقتدر قوتوں کو استعمال کرنا ہے۔
اگر مارشل لا لگاتے ہیں تو مولانا نے صاف کہہ دیا ہے کہ پھر مارچ کا رخ مقتدر حلقوں کی جانب موڑ دیا جائے گا اور اگر پیپلز پارٹی کو موقع دیتے ہیں تو مولانا پیپلز پارٹی کے ساتھ باآسانی ایڈجسٹ ہو جائیں گے اور پھر ن لیگ کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہو گا کہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف احتجاج کرے کیونکہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے خلاف دھرنے کی مخالفت کی تھی اور ن لیگ کی حکومت کو گرنے نہیں دیا تھا یوں پیپلز پارٹی کو اقتدار ملنے کی صورت میں جمہوریت بہترین انتقام بن جائے گا جو عوام سے لیا جائے گا اور ملک کا کیا ہو گا؟ یہ کسی نے ابھی سوچا نہیں۔
ماضی قریب میں اگر پیپلزپارٹی کا طرز عمل دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے پیپلز پارٹی کی مقتدر قوتوں کے ساتھ کوئی خاموش مفاہمت موجود ہے لیکن بظاہر ایسا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی بھی زیرعتاب ہے اور احتساب صرف ن لیگ کا نہیں ہو رہا اور ایک اہم بات یہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کو سزا دے کر گرفتار کیا گیا اس سزا کی وجہ دونوں الیکشن کے لیے نا اہل ہوچکے ہیں لیکن دوسری جانب زرداری اور فریال تالپور کو ماضی کی طرح بغیر سزا کے جیل میں رکھا گیا ہے اور بلاول کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہے اگر مستقبل میں زرداری اور فریال تالپور کو سزا ہو بھی جاتی ہے اور بلاول اقتدار کی کرسی تک پہنچ بھی جاتے ہیں تو میری نظر میں زرداری کے لیے یہ برا سودا نہیں ہو گا۔ ان کی سزا سے ن لیگ کا یک طرفہ احتساب کا بیانیہ بھی کمزور پڑ جائے گا اور بلاول کا راستہ بھی آسان ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ پانامہ پیپر پر عدالتی فیصلے کی حمایت سینیٹ الیکشن میں حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ اور پھر تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنوا کر اب ایک بار پھر لاڑکانہ کی سیٹ پر شکست کھائی جس سے 2018 کے الیکشن کو شفاف ثابت کر دیا گیا۔
اس عمل کے ذریعے سلیکٹرز کی گرتی ہوئی ساکھ کو کاندھا دیا گیا اب ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی روز بہ روز اقتدار کے ایوانوں کی طرف بڑھ رہی ہے معاملہ یہیں آ کر خراب ہوتا ہے کہ سیاست دان اقتدار کی خاطر اور اقتدار کو طول دینے کی خاطر مقتدر قوتوں کی گرتی ہوئی ساکھ کو کاندھا دیتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں اس وجہ سے حقیقی جمہوریت کبھی بھی پاکستان میں قائم نہیں ہوسکی وقت آ گیا ہے۔
سیاست دان حقیقی جمہوریت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور گرتی ہوئی دیوار کو سہارا نہ دیں بلکہ مکمل گرنے تک تھوڑا صبر سے کام لیں اور واضح روڈ میپ کے ساتھ منظم طریقے سے ایک تحریک شروع کر دیں اور اس حکومت کو وقت پورا کرنے دیں جنہوں نے ان کو ووٹ دیا، جو سہولت کار بنے ان کا چاہ بھی مکنے دیں کیونکہ چاہ 'مکسی تے گل بنسی' اور سیاست کے رولز آف دی گیم خود متعین کریں جس میں بڑی سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کی امید ہو اور چھوٹے صوبوں کو ان کا حق ملنے کا یقین ہو ن لیگ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وفاق پر کسی ایک صوبے یا ایک جماعت کا غلبہ ہمیشہ حقیقی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بنا رہے گا، اسی طرح سندھ اور پنجاب میں بار بار ایک ہی جماعت کی حکومت احتساب کی راہ رکاوٹ بنی رہے گی اور مقتدر قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع فراہم کرے گی، اس لیے مقتدر قوتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے سیاست کے رولز خود طے کرنے کا وقت آگیا ہے جس میں پانچ سال بعد اقتدار کی ایک جماعت سے دوسری جماعت کو منتقلی یقینی ہو اور احتساب کا ایک آزاد اور غیر جانبدار ادارہ موجود ہو جو بلا تفریق ہر طبقے اور ادارے کا احتساب کر سکے۔
اگر نوشتہِ دیوار نہیں پڑھا گیا تو اسی دائرے کے سفر میں چلتے رہیں جس پر 70 سال سے چل رہے ہیں اور اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں۔
مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔