Get Alerts

کیپٹن صفدر گرفتاری پر بلاول کا آرمی چیف سے رینجرز پر الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

کیپٹن صفدر گرفتاری پر بلاول کا آرمی چیف سے رینجرز پر الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ مریم صاحبہ اور کیپٹن صفدر کے ساتھ جو ہوا انتہائی شرمناک ہے۔ ان کے ساتھ اس سلوک پر میں شرمسار ہوں اور منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ قائد کے مزار پر ایک نعرہ لگانے پر تماشا کھڑا ہوگیا، عمران خان خود بھی مزار قائد جاتے تھے تو ایسے ہی نعرے لگائے جاتے تھے لیکن کسی نے ایف آئی کاٹنے کی کوشش نہیں کی۔

بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کرتے ہوے کہا کہ کیپٹن صفدر کو صبح ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کرنا سندھ کی روایت کے خلاف ہےاور ان کو حراساں کرنا اور گرفتار کرنا عوام کی توہین ہے۔

انکا کہنا تھا کہ پولیس افسران کا چھٹیوں پر جانے سے ادارے کی تضحیک ہوئی ہے۔ پولیس ادارے کے لوگ چھٹی پر جارہے ہیں کیونکہ ان کی عزت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ تمام ادارے اپنی عزت کیلئے کام کر رہے ہیں۔ محکمہ پولیس کے تمام لوگ سوال کر رہے تھے کہ وہ کون تھے جو آدھی رات آئی جی کو گھر سے لیکر گئے اور ان پر دباو ڈالتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ میں جنرل باجوہ، جنرل فیض سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے ادارے میں تحقیقات کریں اور ذمہ داران کا تعین کریں کہ ایسا کس کے کہنے پر ہوا۔ بلاول بھٹو نے کہا ہم اس طرح کے اقدامات برداشت نہیں کریں گے۔ کچھ لائنیں عبور نہیں کرنا چاہیئں تھی جنہیں عبور کیا گیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اس بیانئیے کو تقویت ملی کہ حکومت کے اوپر ایک حکومت قائم ہے جو اداروں کو کچھ نہیں سمجھتے۔ انکا کہنا تھا کہ میں آئی جی پولیس اور پورے محکمہ پولیس کے ساتھ کھڑا ہوں اور ان کے ساتھ ہوئے سلوک پر مذمت کرتا ہوں۔

یاد رہے کہ سندھ حکومت نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے متعلق مطلع کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آئی جی سندھ کو رینجرز کی جانب سے صبح چار بجے اغواء کیا گیا اور انہیں کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے کیلئے مجبور کیا گیا۔ مسلم لیگ کے رہنماء محمد زبیر جب تھانے پہنچے توحکومت سندھ نے انہیں بتایا کہ آئی جی سندھ کو صبح چار بجے اغواء کر کے سیکٹر کمانڈر کے دفتر لے جایا گیا جہاں ایڈیشنل آئی جی بھی موجود تھے اور انہیں کیپٹن صفدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کیلئے مجبور کیا گیا اور شدید دباو میں ڈال کر وارنٹ گرفتاری جاری کروائے گئے۔ اس سلوک پر سندھ پولیس کے سینئر 15 سے زائد افسران نے احتجاجاً چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔