Get Alerts

کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور آرمی چیف کے نوٹس کے درمیان کیا ہوا؟

کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور آرمی چیف کے نوٹس کے درمیان کیا ہوا؟
کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا معاملہ جہاں قومی سیاست میں ایک بڑی ہلچل پیدا کر چکا ہے وہیں اس نے اداروں کے درمیان بھی ایک تصادم کی سی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ گذشتہ روز جب پہلی بار یہ خبر سامنے آئی کہ آئی جی پولیس کو رات کے 4 بجے ان کے گھر سے اغوا کیا گیا تو بہت سے لوگوں نے اس خبر کی تردید کی۔ یہ خبر حامد میر صاحب کی تھی اور ان کے بعد مبشر زیدی اور دیگر نے بھی اس کی تصدیق کی لیکن حکومتی وزرا اور سوشل میڈیا صارفین اسے ماننے کو تیار نہ تھے۔

تاہم، کچھ دیر بعد سابق گورنر سندھ زبیر عمر جو کہ مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے ترجمان بھی ہیں، نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کو سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی جانب سے یہی کچھ بتایا گیا ہے۔

اس کے بعد بھی اس واقعے کی تحقیقات کا اعلان تو کر دیا گیا لیکن حکومتی وزرا مسلسل اس حوالے سے سندھ کی صوبائی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے اور یہی بیانیہ جاری رکھا کہ اس میں پیپلز پارٹی کی سازش شامل ہے جو کہ دراصل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے خود کو علیحدہ کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے بارہا اس واقعے پر شرمندگی کا اظہار کیا، مسلم لیگ نواز سے معذرت کی اور قضیہ یہ کھلا کہ رات کے اندھیرے میں آئی جی پولیس کے گھر کا اچانک گھیراؤ کیا گیا اور انہیں ان کے گھر سے لے جا کر رینجرز کے سیکٹر کمانڈر کے سامنے بٹھا دیا گیا۔

یہیں پر پھر ایڈیشنل آئی جی کو بھی لایا گیا اور ان دونوں کو کہا گیا کہ آپ حکم دیں کہ کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا جائے۔ یہ زبیر عمر ہی کے انکشافات تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب آئی جی نے دستخط کرنے سے انکار کیا تو انہیں کہا گیا کہ آپ صرف دستخط کریں، کام رینجرز خود کر لیں گے لیکن جب انہوں نے دستخط کر دیے تو انہیں بتایا گیا کہ یہ کام بھی سندھ پولیس ہی کرے گی۔

 

میڈیا اطلاعات کے موقع پر جب یہ کارروائی کی گئی تو اس وقت بھی رینجرز ہی نے اچانک نجی ہوٹل کی سکیورٹی سنبھال لی تھی اور گرفتاری پولیس کے ذریعے عمل میں لائی گئی تھی۔

کیپٹن صفدر تو رہا ہو گئے لیکن جب معاملہ طول پکڑتا گیا تو وزیر اعلیٰ سندھ نے ایک پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، اس پریس کانفرنس میں اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی گئی اور جب سوالات کا وقت آیا تو یہ براہ راست لنک بند کر دیا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اچانک اطلاعات آنے لگیں کہ سندھ پولیس کے بہت سے سینیئر افسران بشمول آئی جی پولیس کے چھٹیوں پر جانا چاہتے ہیں اور وہ مزید اپنے فرائض انجام دینے کے لئے تیار نہیں۔ ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ عمران یعقو ب منہاس کا آئی جی کو لکھا خط سب سے پہلے منظرِ عام پر آیا اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی افسران کی جانب سے یہ درخواستیں میڈیا اور سوشل میڈیا میں گردش کرنے لگیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا جس میں انہوں نے مکمل طور پر سندھ پولیس کے ساتھ کھڑا ہونے کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے اور میں اسے برداشت نہیں کروں گا۔ انہوں نے پولیس کو یقین دلایا کہ اس معاملے کی آزادانہ انکوائری کی جائے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی فیض حمید کے نام لے کر ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کریں اور دیکھیں کہ سندھ رینجرز یہاں کیا کچھ کر رہی ہے۔ بلاول نے کہا کہ ہم تو اس معاملے کی انکوائری کریں گے ہی لیکن پولیس کو زیادہ بہتر محسوس ہوگا اور انہیں اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات پر زیادہ یقین آئے گا اگر فوج کے سربراہ خود سے ایک تفتیش کا حکم دیں۔

بلاول کا یہ بیان سامنے آنے سے پہلے ہی سارے معاملے کو میڈیا میں ایک سپن دینے کی کوشش یوں کی گئی کہ حکومت کے بہت ہی پسندیدہ صحافی کامران خان کی جانب سے کہا گیا کہ پولیس سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز پر الزامات عائد کیے جانے کے بعد پولیس احتجاجاً استعفے دے رہی ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز دعویٰ تھا لیکن اے آر وائے، سماء اور 92 نیوز جیسے چینلز پر بھی پھر یہی لائن لی گئی۔

تاہم، پہلے مریم نواز نے ٹوئیٹ کے ذریعے اس کا توڑ کیا جب انہوں نے سندھ پولیس کے اس اقدام پر ان کو سلام پیش کیا، اور پھر بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس پریس کانفرنس کے ذریعے اس بیانیے میں سے پھونک نکال دی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پولیس کے ادارے کی تضحیک ہوئی ہے۔ پولیس ادارے کے لوگ چھٹی پر جارہے ہیں کیونکہ ان کی عزت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ تمام ادارے اپنی عزت کے لئے کام کر رہے ہیں۔ محکمہ پولیس کے تمام لوگ سوال کر رہے تھے کہ وہ کون تھے جو آدھی رات آئی جی کو گھر سے لے کر گئے اور ان پر دباؤ ڈالتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ میں جنرل باجوہ، جنرل فیض سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے ادارے میں تحقیقات کریں اور ذمہ داران کا تعین کریں کہ ایسا کس کے کہنے پر ہوا۔ بلاول بھٹو نے کہا ہم اس طرح کے اقدامات برداشت نہیں کریں گے۔ کچھ لائنیں عبور نہیں کرنا چاہیئں تھی جنہیں عبور کیا گیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اس بیانئیے کو تقویت ملی کہ حکومت کے اوپر ایک حکومت قائم ہے جو اداروں کو کچھ نہیں سمجھتے۔ انکا کہنا تھا کہ میں آئی جی پولیس اور پورے محکمہ پولیس کے ساتھ کھڑا ہوں اور ان کے ساتھ ہوئے سلوک پر مذمت کرتا ہوں۔

اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کور کمانڈر کراچی کو معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے کہ حالات اور واقعات کا فوری جائزہ لے کر رپورٹ کریں۔

تجزیہ کار اس ساری صورتحال کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں اور لگتا نہیں کہ یہ معاملہ اتنی آسانی سے ختم ہونے والا ہے۔