اے پی ایس شہدا کے لواحقین نے سابق اعلیٰ و عسکری قیادت کو سانحے کا ذمہ دار قرار دیکر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر دیا

اے پی ایس شہدا کے لواحقین نے سابق اعلیٰ و عسکری قیادت کو سانحے کا ذمہ دار قرار دیکر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر دیا
سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور ازخودنوٹس کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران اے پی ایس شہدا کے لواحقین نے اس وقت کے اعلی سول و عسکری قیادت کو سانحہ کا ذمہ دار قرار دےدیا۔

شہدا کی ماؤں نے عدالت سےاستدعا کی کہ جنرل راحیل شریف پر مقدمہ درج کیا جائے۔ علاوہ ازیں لواحقین نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیراعلی پرویز خٹک پر بھی مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ لواحقین کی جانب سے دئیے گئے ناموں میں سابق کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمان اور سابق سیکرٹری داخلہ اختر شاہ کےنام بھی شامل ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ذمہ داران کو تو سزائے موت ہوچکی، کچھ موقع پر مارے گئے، اس پر ایک شہید کی والدہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو مارے گئے وہ دہشتگرد تھے منصوبہ ساز اب بھی زندہ ہیں، منصوبہ سازوں کو سزا ملے تاکہ اپنی کرسیاں بچانے کیلئے کوئی بچے شہید نہ کرے۔

شہید کی والدہ نے کہا ہمیں حکومت سے کچھ نہیں چاہیے، صرف بچوں کے خون کا بدلہ چاہیے، جوڈیشل کمیشن نے بھی سکیورٹی ناکامی کو سانحہ کی وجہ قرار دیا۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ سکیورٹی ناکامی کی وجہ سے پورا ملک متاثر ہو رہا ہے، اب تک ہزاروں جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ریاست سمجھتی ہے کوئی ذمہ دار رہ گیا ہے تو اس کیخلاف کارروائی کرے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو والدین کے مطالبے پر ضروری اقدامات کا حکم دے دیا۔ جس کے مطابق اٹارنی جنرل دو ہفتے بعد ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر عدالت کو اقدامات سے آگاہ کریں گے۔

اس کے بعد کیس کی سماعت کو مزید دو ہفتے کیلئے ملتوی کر دیا۔

سماعت کے بعد آرمی پبلک سکول کے شہداء کے والدین نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کو ان بڑوں کے نام دئیے ہیں جو اے پی ایس سانحہ پشاور کے اصل ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے لوگوں کو سزا ملتی ہے لیکن بڑی کرسیوں میں موجود افراد بچ جاتے ہیں۔

اے پی ایس کے لواحقین نے کہا کہ آج عدالت میں ہم نے کچھ بڑوں کے نام دئیے ہیں، عدالت نے ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا کہا گیا ہے، ہم نے عدالت میں سابق آرمی چیف، سابق وزیر داخلہ ،سابق کور کمانڈر پشاور اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ کے نام بھی بتائے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ دہشتگرد افغانستان کے راستے کیسے پہنچے اس کا ذمہ دار کون ہے، اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے تھیریٹ الرٹ جاری کیا تھا تو انہوں نے کیا کیا، ابھی تک سانحہ پشاور کے کسی قاتل یا ذمہ دار کو سامنے نہیں لایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے نام آج عدالت میں دئیے ہیں ان سے پہلے کھبی انکوائری نہیں کی گئی، سانحہ پشاور کے جن افسران کو سزائیں ملی وہ کسی قاتل کی سزائیں نہیں ہیں۔ ہمارے بچے لاوارث نہیں ہیں، ہمیں کہیں اور سے انصاف نہیں ملا اس لیےسپریم کورٹ کے دروازے پر آئے ہیں، سپریم کورٹ ہمارے لئے انصاف کا آخری دروازہ ہے۔

واضح رہے کہ سنہ 2014 میں پشاور آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں نے حملہ کرکے سینکڑوں بچوں کو شہید کر دیا تھا۔ اس دہشتگرد واقعے کی تحقیقات کے لئے 2018ء میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں واقعے کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے ہمارے سکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے 6 برس قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے سے متعلق تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ کمیشن پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل تھا اور اس نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ جولائی 2020ء میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی تھی۔

آرمی پبلک سکول پشاور کے لواحقین اس واقعے کے بعد مسلسل ریاستی اداروں پر الزام لگا رہے ہیں اور موقف اپناتے ہیں کہ اس حملے کی منصوبہ سازی ریاستی اداروں نے کی تھی اور ان کے بچوں کو ٹارگٹ کلنگ میں مارا گیا۔

لیکن دوسری جانب فوج اور دیگر ریاستی ادارے ان الزامات کی تردید کرتے آ رہے ہیں۔ فوج نے اس پر موقف اپنایا ہے کہ کئی افسران کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی جاچکی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے رپورٹ کے مطابق اے پی ایس کمیشن رپورٹ میں پاکستانی فوج کی محکمانہ انکوائری کی تفصیلات بھی منظر عام پر آئی ہیں، جس کے مطابق سکول کی سکیورٹی کے معاملے پر فوج کا روایتی معیار برقرار نہ رکھ پانے کی وجہ سے بریگیڈیئر سمیت 15 افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ ایک میجر سمیت پانچ اہلکاروں کو فوج سے برطرف کر دیا گیا۔

رپورٹ کے چوتھے حصے کے باب نمبر 19 میں فوج کی جانب سے محکمانہ کارروائی کی تفصیل دی گئی ہے، جس کے مطابق برگیڈیئر مدثر اعظم کو ترقی نہ دینے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت نہ دینے کے احکامات جاری کیے گئے جبکہ کرنل مظفر الدین اور کرنل حضرت بلال کو حساس مقامات پر تعینات نہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ کرنل مظفر اور کرنل بلال کی ترقی اور بعد از ریٹائرمنٹ تعیناتیوں پر بھی منفی ریمارکس تحریر کیے گئے ہیں۔

اسی طرح حوالدار منظر حسین، سپاہی محمد عثمان، سپاہی محمد عدنان، احسان اللہ، احسن نواز اور سعود اعظم کو 28 دن قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان تمام اہلکاروں کو آئندہ حساس مقامات پر تعینات نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

عسکری حکام نے کمیشن کو دی گئی رپورٹ میں یہ واضح کیا کہ ’افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی سانحے میں ملوث ہونے یا غفلت پر نہیں برتی گئی بلکہ ایسے حساس آپریشنز میں فوج کا ایک روایتی معیار ہوتا ہے، جسے برقرار نہیں رکھا گیا۔‘

مزید کہا گیا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد فوج کی جانب سے متعلقہ افسران اور اہلکاروں کے خلاف محکمانہ انکوائری اور کارروائی ناگزیر تھی۔

واضح رہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے طالبان کو مذاکرات اور معافی کی پیشکش پر شہدائے اے پی ایس کے والدین نے پشاور اور اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت ہمارے بچوں کے قاتلوں کو معاف نہیں کرسکتی اور اگر طالبان کو معاف کرنا ہے تو پھر ہم پر بم گرا کر ہمیں مار دیں ۔