Get Alerts

بزدار سرکار کی شہدا کے لواحقین کے لئے مختص زمین کی بیوروکریسی کو الاٹمنٹ

بزدار سرکار کی شہدا کے لواحقین کے لئے مختص زمین کی بیوروکریسی کو الاٹمنٹ
پاک فوج کے مرکز، جنرل ہیڈ کوارٹرز کے ڈائریکٹر جنرل لینڈز کی جانب سے لکھے گئے ایک خط کے جواب میں تحریک انصاف کی حکومت پنجاب نے غیر قانونی طور پر فوج کے شہدا کے لئے وقف اراضی سرکاری افسروں کو الاٹ کرنے کی توثیق کردی ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق زمین کا کل رقبہ 25 ایکڑ ہے جسے 47 حکومتی افسران کو الاٹ کیا گیا ہے۔ یہ رقبہ AWS کے تحت شہدا کے خاندانوں کے لئے مختص کیا گیا تھا اور اس کی سرکاری افسران کو منتقلی کی سمریز کو شہباز حکومت کی جانب سے متعدد بار منسوخ کیا گیا بلکہ فائدہ اٹھانے والے افسران سے زمین کی مالیت وصول کیا گیا جب کہ ان کے خلاف کارروائی بھی کی گئی تھی ۔
تفصیلات کے مطابق یہ الاٹمنٹ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2004 اور 2008 میں غیر قانونی طور پر کی گئیں تھیں۔ وزیر اعلیٰ  پنجاب سیکریٹیریٹ کے ذرائع نے بتایا کہ کہ یہ الاٹمنٹ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں وزیر اعلیٰ  شہباز شریف کی جانب سے منسوخ کر دی گئی تھی۔ شہباز شریف نے منسوخی کولونائزئشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 اور آرمی ویلفئیر ٹرسٹ پالیسی فریم ورک 1962 کی خلاف وری کی بنیاد پر کی تھی۔ اس منسوخی کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے وہ متعدد سمریز بھی رد کر دیں جو کہ محکمے کی جانب سے بار بار انہیں بھیجی گئیں۔ فوج کے مرکزی دفتر جنرل ہیڈ کوارٹر کے شعبہ لینڈ کی جانب سے متعدد بار شہباز شریف کی پنجاب حکومت کو پیغام بھجوایا گیا کہ شہدا کی ان زمینوں کی سرکاری افسران کو منتقلی کے معاملے کو اب "کلوزڈ چیپٹر" سمجھا جائے اور اسکے بدلے میں حکومت پنجاب اور پنجاب بورڈ آف لینڈ ریونیو کے ساتھ مل کر متبادل اور نئے انتظام کے طریقہ کار کو وضع کرنے کی آفر بھی دی گئی۔ لیکن شہباز شریف نے یہ مہربانی نہ کی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سیکریٹیریٹ کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک آرمی ویلفئیرسکیم کے تحت شہدا کے ورثا کے لئے مختص کی جانے والی 837 ایکٹر زمین سرکاری افسروں کو پنجاب حکومت کے مشورے کے بغیر غیر قانونی طور پر الاٹ کی جا چکی ہے۔ یہ زمین بہالپور، رحیم یار خان، پاک پتن خانیوال، ساہیوال، بہاولنگر رحیم یار خان، اور صادق آباد میں دی گئی۔ اس زمین سے مستفید ہونے والوں میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے پرسنل سٹاف آفیسر عامر کریم خان بھی شامل ہیں۔ ڈان اخبار نے بتایا کہ شہباز شریف نے نہ صرف ان زمینوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے والے افسران کا محکمانہ کارروائی سے بھی گزرنا ممکن بنایا۔ شہباز حکومت کی جانب سے چند افسران کو اس معاملے میں معطل کرتے ہوئے ان کا کیس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی بھجوایا تاہم انکے خلاف خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی۔

طاقتور بیوروکریسی کے طاقتور افسران نے معاملے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا جس پر عدالت نے بورڈ آف ریوینیو کو اس معاملے پر نئے سرے سے نظر ثانی کا حکم دیا جب کہ جی ایچ کیو نے اس زمین کی سرکاری افسران کو منتقلی کو اپنے کھاتے میں سنہ 2013 میں منسوخ قرار دے دیا۔ اور جب تک شہباز شریف وزیر اعلیٰ رہے کسی بھی افسر کی معاملہ ان کے سامنے لانے کی جرات نہ ہوئی۔

تاہم نومبر 2019میں جی ایچ کیو کے ڈی جی لینڈز نے ایک خط میں بزدار حکومت کو کہا گیا کہ پرویز مشرف کو بطور چیف ایگزیکٹو عدلیہ نے مکمل اختیار اور استثنی' دیا تھا اور انکے احکامات اس فیصلے کی روشنی میں درست ہیں اس لئے ان زمینوں کی منسوخی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی سرکاری افسروں کو الاٹمنٹ کی تجدید کی جائے۔ اخبار نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ڈی جی لینڈ کس طرح 2009 کا پی سی او ججز کیس کا فیصلہ بھول گئے۔ اس خط کے دو روز بعد بورڈ آف ریوینیو کے ممبر کالونیز نے معاملے کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو لکھا کہ وہ اس معاملے کو نئے سرے سے دیکھنے کے بارے فیصلہ لیں۔

جس پر وزیر اعلیٰ بزدار نے معاملہ کابینہ کی قائمہ کمیٹی کے آگے معاملہ رکھا جہاں اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ جی ایچ کیو کے ملٹری لینڈز کی رائے مکمل طور پر درست ہے۔ جس کے بعد اب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کابینہ کے فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے ان الاٹمنٹس کی اجازت دے دی ہے۔