تحائف منصب کو ملتے ہیں ذات کو نہیں، ریاست مدینہ میں تحفے بیت المال میں جمع کیے جاتے تھے: طارق جمیل

تحائف منصب کو ملتے ہیں ذات کو نہیں، ریاست مدینہ میں تحفے بیت المال میں جمع کیے جاتے تھے: طارق جمیل
معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ ریاست مدینہ میں تحائف ذات کو نہیں بلکہ منصب کو دیئے جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے دنوں میں تحفوں کو بیت المال میں جمع کرایا جاتا تھا۔

یہ بات انہوں نے ایک نجی ٹیلی وژن کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ کا سفر الفاظ سے پورا نہیں ہوگا، اس کیلئے پوری قوم کو بیڑہ اٹھانا پڑے گا۔

مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ریاست مدینہ میں حکمران ایک ایک پیسے کیلئے جواب دہ ہیں۔ یہ ایک طویل سفر ہے جو باتوں سے پورا نہیں ہوگا۔ حکمران ایک ایک پائی کا جوابدہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ سچائی، انصاف اور مواخات کے اصولوں پر قائم تھی لیکن یہ کسی چیزیں لاگو نہیں کی جا سکتیں۔ اگر حکومت پاکستان قانون بنائے کہ کل سے سارے سچ بولیں گے، کوئی دھوکہ نہیں دے گا، معاشرے میں فراڈ نہیں ہوگا اور کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا تو اس پر عملدرآمد کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ نہ تو دنیا میں اب تک ایسی کوئی مشین ایجاد ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا فارمولہ ہے کہ ان اخلاقیات پر عمل کرایا جائے، ہم سب کو ذاتی طور پر یہ ذمہ داری سمجھنی پڑے گی۔

مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ریاست مدینہ کو دہرائے، اس کیلئے عوام کو تعاون کرنا پڑے گا۔

خیال رہے کہ بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مولانا طارق جمیل نے تسلیم کیا تھا کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی سوچ سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان ریاست مدینہ کیلئے اکیلے لڑ رہے ہیں، ان کے پاس مضبوط ٹیم نہیں، اس صورتحال میں معاشرہ جلد تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا تھا کہحکمرانوں کو جا کر نصیحت کرنا تو ہمارے ذمہ ہے لیکن ان سے مفاد اٹھانا سودے بازی کے مترادف ہے۔ ہم کنارہ کش ہو کر بیٹھ جائیں تو غلط لوگ ان کو گھیر لیں گے۔

واضح رہے کہ ایک شہری کی جانب سے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کو پبلک کیے جانے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

اس درخواست پر پاکستان انفارمیشن کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی تھی کہ غیر ملکی سربراہان مملکت، حکومتوں کے سربراہان اور دیگر غیر ملکی معززین کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو موصول ہونے والے تحائف کے بارے میں مطلوبہ معلومات فراہم کریں۔

اس کیساتھ ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان کے اپنے پاس ہر تحفے کی تفصیلات اور وہ قواعد جن کے تحت انہوں نے تحائف وصول کیے بارے بتانے کا کہا گیا تھا۔

تاہم حکومت نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ معاملہ 2017ء کے معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتا اور معلومات فراہم کرنے سےانکار کر دیا۔

بعد ازاں کابینہ ڈویژن نے معلومات فراہم کرنے سے متعلق پاکستان انفارمیشن کمیشن کے حکم کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا اور دعویٰ کیا کہ پی آئی سی کا حکم غیر قانونی اور بغیر قانونی اختیار کا ہے۔

حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانہ سے متعلق کوئی بھی معلومات ظاہر کرنے سے بین الاقوامی تعلقات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ تحائف کی تفصیل کے اجرا سے میڈیا ہائپ اور غیر ضروری خبریں پھیلیں گی، مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر اور ملکی وقار مجروح ہوگا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا درخواست کی سماعت کے دوران کہنا تھا کہ حکمرانوں کو ملنے والے تحائف ان کے نہیں بلکہ عوام کے ہیں۔ اگر کوئی عوامی عہدہ نہ ہو تو کیا عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو تحائف ملیں گے؟

کابینہ ڈویژن کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ تحائف کی تفصیلات عام کرنے سے ممالک کے باہمی تعلقات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ کچھ ممالک نہیں چاہتے کے معلومات عام کی جائیں۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اُس پر وڈیوز بنتی ہیں جس سے دوست ممالک ناراض ہو سکتے ہیں۔

اس پر عدالت نے کہا کہ کس ملک نے کتنی محبت سے کیا تحفہ دیا، یہ بات عوام کو بتانے سے تعلقات کیسے خراب ہوں گے؟ اگر کسی نے یورینیم تحفہ میں دی ہے تو بے شک وہ نہ بتائیں لیکن ہر تحفے کو پبلک کرنے پر پابندی کیوں؟

عدالت عالیہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی ملک نے ہار تحفے میں دیا تو پبلک کرنے میں کیا حرج ہے؟ حکومت دیگر ممالک سے ملنے والے تحائف نہ بتا کر کیوں شرمندہ ہورہی ہے؟

جسٹس میاں حسن نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ حکومت تمام تحائف کو میوزیم میں کیوں نہیں رکھتی؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے گذشتہ 10 سالوں کے تحائف پبلک کردے۔ حکومت یہ بھی بتائے کہ کتنے تحائف کا ایف بی آر سے تخمینہ لگوایا؟

عدالتی سوالات اور وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات بتائیں گے یا نہیں اس معاملے پر حکومت نے عدالت سے مہلت مانگ لی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کی استدعا پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ہے۔