سیاست دانوں کو پارلیمان کی بالادستی تبھی یاد آتی ہے جب وہ خود خطرے میں ہوں

سیاست دانوں کو پارلیمان کی بالادستی تبھی یاد آتی ہے جب وہ خود خطرے میں ہوں
اگرچہ باقی جماعتوں نے بھی اس میں حصہ ضرور ڈالا مگر خاص طور پر پارلیمان کی بے توقیری پنجاب کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پارلیمان کی اہمیت کا بڑی حد تک احساس ہو گیا ہے مگر شاید پی ٹی آئی کو ابھی تک یہ احساس نہیں ہوا۔ شاید اسی لیے عمران خان نے طالبان کی سوات میں دوبارہ آمد سمیت تمام مسائل کا حل پارلیمان کے ذریعے ہی تلاش کرنا شروع کر دیا یے اور ساتھ ہی اداروں کو اپنی بات سمجھانے اور انہیں بڑی حد تک دباؤ میں لانے کے لیے بھی اسے پارلیمان ہی کا رخ کرنا پڑا ہے۔ قومی اسمبلی کا آج ہونے والا اجلاس ہنگامہ خیز تو نہیں تھا مگر بہت عرصے کے بعد پارلیمان میں وہ بات ہوئی جو پارلیمان کے وجود کی بنیاد ہے۔ یعنی پارلیمان میں آج آئین، قانون، ریاست اور اداروں کے کردار کے حوالے سے بات ہوئی۔ پاکستان کی بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ جو پارلیمان آئین کی خالق ہے، پچھلے 75 سالوں میں باقی تمام اداروں کی عزت اور توقیر پر تو زور دیا گیا اور اس کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی مقرر کی گئیں مگر آئین اور قانون کا خالق یہ ادارہ اپنی عزت کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کر سکا۔ بس آئین کا دبدبہ بنائے رکھنے کے لیے آرٹیکل 6 اس میں شامل کر دیا گیا جو اٹھارھویں ترمیم کے بعد بھی غیر مؤثر ہی رہا۔

ہمیشہ سیاست دان ہی غیر منتخب اور آمرانہ قوتوں کو کندھا بھی پیش کرتے رہے، اس کے نتیجے میں بار بار آئین توڑا گیا۔ عدالتوں نے آئین اور قانون کو موم کی ناک سمجھ کر اپنی مرضی سے استعمال کیا اور یہ بھی سچ ہے کہ سیاست دانوں کو آئین اور پارلیمان اسی وقت یاد آتی ہے جب وہ خود خطرے میں ہوں۔ آج پھر ایسا ہی لگا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف، شیری رحمٰن، اختر مینگل، ریاض پیرزادہ اور جماعت اسلامی کے مولانا عبدالرحیم چترالی تک کی آج کی گفتگو بلاوجہ نہیں تھی۔ بلوچستان کی بات کریں تو صوبے میں جہاں سرحد پار افغان سرزمین سے دہشت گردی کے واقعات سامنے آ رہے ہیں، وہیں قوم پرست دوبارہ منظم ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور اختر مینگل جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں آگ میں مت دھکیلیں تو دراصل وہ حالات کی سنگینی کی جانب اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ذمہ داروں میں کچھ اپنے با اختیاروں کا بھی کردار ہے۔ خواجہ آصف اور شیری رحمٰن تو ان سے بھی ایک قدم آگے نکلتے دکھائی دیے۔ خواجہ آصف نے عمران خان اور سوات میں تحریک طالبان کے دوبارہ قدم جمانے کے حوالے سے اداروں کے کردار کا تذکرہ کیا تو شیری رحمٰن نے جہاں سکیورٹی اداروں کی تعریف کی، وہیں دہشت گردی کے حوالے سے بعض اشارے بھی دیے۔ مگر دریا کو کوزے میں ریاض پیرزادہ نے یہ کہہ کر بند کیا کہ ملک کو عدلیہ، گھروں کی حفاظت کرنے والے اور پارلیمان تباہی کی جانب لے جا رہے ہیں۔

خواجہ آصف ہوں، ریاض پیرزادہ یا پھر شیری رحمٰن؛ یہ صرف عام حکومتی نمائندے نہیں بلکہ حکومت کے نفس ناطقہ کہے جا سکتے ہیں۔ آج کی گفتگو کا مطلب بہت واضح ہے، وہ ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق تو کہہ رہے ہیں مگر اس کے ساتھ مشاورت کے ساتھ تاکہ کچھ اوروں کو بھی دباؤ میں لایا جا سکے۔ ہوسکتا ہے کہ اس گفتگو کے بعد ہم اگلے دنوں میں ان تمام حوالوں سے کوئی غیر معمولی اقدامات بھی ہوتے دیکھیں اور دہشت گردی کے خلاف سوات اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں نہ صرف تحریک طالبان پاکستان بلکہ اس کے سہولت کاروں کے خلاف بھی ایک بار پھر ایک بڑا آپریشن ہوتا دیکھیں۔ مگر ہو سکتا ہے یہ آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد کی طرح کا نہ ہو۔ شاید کسی تیسری شکل میں ایسا آپریشن ہو جس میں سہولت کاروں اور بعض اپنوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ آج پارلیمان میں ہونے والی گفتگو میں اہم عہدے پر توسیع کے حوالے سے اشارے تو دیے گئے مگر شاید اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ جنگ میں کمان کی تبدیلی اور اس قسم کے آپریشن کے دوران کمان کی تبدیلی دو بالکل مختلف معاملات ہیں اور اعلیٰ سطح سے بھی اس کا اظہار کیا جا چکا ہے۔

اعجاز احمد صحافت سے وابستہ ہیں اور کئی دہائیوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔