پاکستان کے عوام بڑے معصوم ہیں، کبھی کسی کو رہنما بنا کر اپنی زندگی کا اہم حصہ یا اس حد تک کہ جان بھی اس رہنما کی جذباتی تقریروں پر قربان کر دیتے ہیں تو کبھی بنا سوچے سمجھے کسی سیاست دان کی باتوں میں آ کر ملک کے اہم اداروں پر الزام تراشیاں کر کے اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر کے اپنا مستقبل برباد کر لیتے ہیں۔ لیڈر کو حقیقت میں لیڈر بھی عوام بناتے ہیں اور لیڈر کو ناکام بھی درحقیقت عوام ہی بناتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا میں سوشل میڈیا اس لحاظ سے سب سے طاقتور میڈیا بن کر ابھرا ہے کہ یہاں ہر سچی، جھوٹی بات، تصدیق اور بلا تصدیق کوئی بھی خبر، تصویر، ویڈیو پھیلانے کی سب کو آزادی حاصل ہے۔
جب سے ہمارے ملک کی سیاست میں بھونچال آیا ہے اور عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے تب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سپورٹر اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق دلائل دے کر ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاست دانوں کی کردار کشی، دانستہ یا نادانستہ جھوٹ کو پھیلانے میں مدد دینے جیسے کام تو ہو ہی رہے ہیں لیکن ان دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاست اور سیاست دانوں کی محبت میں برسوں سے دوستی کے رشتے میں بندھے دوست، خونی رشتوں والے ناتے جو پہلے سیاست دانوں کی محبت میں نوک جھونک تک ہی رہتے تھے، اب سیاست دانوں کو چھوڑ کر باقاعدہ اور براہ راست ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور رکیک جملے بازیوں پر اتر آئے ہیں۔
یہ اب ایک انتہائی حساس معاملہ بنتا جا رہا ہے کیونکہ یہ بلاوجہ کی بحث ان پیارے اور میٹھے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کر رہی ہے۔ عوام اگر سیاست دانوں کے ماضی کا جائزہ لیں تو کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ملے گا۔ آج جس عمران خان کو عوام مسیحا مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ روایتی سیاست کے خلاف ہے، وہ شاید اس بات سے لاعلم ہیں کہ سیاست کا صرف ایک ہی اصول ہوتا ہے اور وہ ہے سیاسی فائدہ۔ چاہے زرداری ہو، شہباز شریف یا پھر عمران خان، سیاست کی اس شطرنج میں عوام صرف استعمال ہونے والے مہرے ہیں۔ ماضی کے اختلافات بھلا کر یہ سیاست دان تو ایک ہو جاتے ہیں مگر وہ عوام جو اپنے اداروں کے خلاف ان کی سیاسی مہم کا حصہ بنتے ہیں، جو ان کی سیاست کی بقا کی جنگ میں دھرنے دیتے ہیں، اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پروپیگنڈے کا حصہ بنتے ہیں، وہ قانون کی گرفت میں آ کر اپنا اور اپنے گھر والوں کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس ملک کو چلانے اور دشمن کے ناپاک عزائم سے بچانے میں سیاست دانوں سے زیادہ افواج پاکستان کا ہاتھ رہا ہے۔ افواج پاکستان نے ماضی سے لے کر اب تک ہمیشہ ملک کی سلامتی اور بہتری کے لیے وہ فیصلے کئے جو جمہوری سیاست دان بھی نہیں کر سکے۔ ایک جانب سیاست دان اپنی شکست کا ملبہ ہمیشہ اداروں پر ڈالتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے اسی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ مانگتے نظر آتے ہیں۔
پاکستانی سیاست اور سیاست دان ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار نظر آ رہی تھی تو اب 2024 کے الیکشن میں تحریک انصاف بظاہر ویسی ہی صورت حال کا سامنا کر رہی ہے۔ اپنی اپنی مشکل کے وقت میں ان دونوں ہی جماعتوں نے اس مشکل کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگایا ہے مگر عوام کو چاہیے کہ سمجھداری سے کام لے اور کسی بھی سیاست دان کی سیاسی جنگ کا حصہ نہ بنے۔ سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا سیاست اور سیاست دانوں کے حوالے سے جتنا تناؤ ہم لے رہے ہیں اور اس فرسٹریشن میں خود ایک دوسرے کو ہی برا بھلا کہہ رہے ہیں، کیا ہمارے 'پیارے' سیاست دان بھی اس تناؤ کو اپنی ذات پر لاگو کرتے ہیں؟
پاکستان میں اقتدار کی بساط بچھانے کیلئے سیاست دان باہمی رشتے داریاں مضبوط کرتے آئے ہیں۔ مولانا اور پی ٹی آئی وفد کی ملاقات بھی عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے ایک حقیقت ہے اور زرداری کا ن لیگ کے وزیر اعظم کو ووٹ دینے کا فیصلہ بھی اس سیاسی کلچر کی تلخ حقیقت ہے۔ آپس میں یہ کتنا ہی ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں لیکن اپنی رشتے داریاں خراب نہیں کرتے۔ اگر ن لیگ کا قالین اٹھا کردیکھیں تو اس میں پی ٹی آئی، ق لیگ کے لوگ دکھائی دیں گے۔ اگر پی ٹی آئی کا قالین اٹھائیں تو اس میں بھی کہیں نہ کہیں تمام سیاسی جماعتیں نظر آئیں گی۔
سیاست دان جو بھی فیصلے کر لیں عوام صرف عوام ہی رہیں گے۔ سیاست ہوتی رہی ہے، ہوتی رہے گی، سیاسی شور ایسے ہی مچتے رہیں گے لیکن اس شور میں اپنی اقدار، دوستیاں، محبتیں اور رشتے نہ گنوائیں کیونکہ یہ رشتے صرف قیمتی نہیں بلکہ بہت قیمتی ہیں۔