معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا کلچر، ہم کہاں جارہے ہیں؟

معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا کلچر، ہم کہاں جارہے ہیں؟
زیادہ پرانی کوئی پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہو گی  جب گلی کے نکڑ پر ہم یار دوست بیٹھ جاتے اور گفتگو کا موضوع محلے کی سیاست سے شروع ہو کر بین الاقوامی سیاست تک پہنچ جاتا۔ اس بحث و مباحثے میں ہر مکتب فکر ہر فرقے اور ہر سوچ کے افراد ہوتے۔ سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ جس میں تلخی بھی عود آتی تو کبھی طنز و مزاح کا پہلو بھی ایک دوسرے کے لیڈران کے لیے استعمال ہوتا  لیکن مجال ہے کہ شائستگی کا دامن کوئی ہاتھ سے چھوڑتا ہو۔  پھر بحث کا اختتام کسی خوشگوار نوٹ پر ختم ہوتا اور کپڑے جھاڑ کر سب اپنے اپنے گھر کی راہ لے لیتے۔ اگلے دن کیا جناب اگلے چند منٹوں میں کسی کے دل میں کوئی میل نہیں ہوتا۔ کسی کے محبوب لیڈر کو ہدف تنقید بنایا جاتا تو وہ تلواریں نکال کر ارطغرل نہ بنتا۔ برداشت اور تحمل مزاجی ایسی کہ رشک آتا۔ ایک بہترین معاشرے کی بھرپور عکاسی ملتی، جہاں اظہار رائے پر کوئی قدغن لگتی اور ناہی کوئی منہ پھلا کر روٹھا رہتا۔ اور ناہی کوئی جلالی روپ میں آکر مغلضات کی بھرمار کرتا۔

ہمیں یاد ہے کہ اُن دنوں مذہبی جماعت والے عورت کی حکمرانی کے خلاف توپ کے گولے برساتے تو حمایتی بھی تاریخی اور مذہبی حوالے سے ہی اس کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور دیتے۔ غالباً اس گفتگو میں شریک ہونے والے اس پہلو سے بخوبی واقف تھے کہ کسی پر اپنی رائے تھونپ سکتے ہیں اور ناہی ہی کسی کی سوچ کو بدل سکتے ہیں۔ ہاں بس اتنا کام ہوتا کہ کھل کر اظہار رائے کیا جائے۔ ممکن ہے کہ اس نکتے پر اتفاق کرتے ہوں کہ یہ بیٹھک کچھ نہ کچھ سیکھنے کا پیغام لاتی ہے۔

مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا منظر بدل گیا۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو ہم نے ایک ایسا گروہ تیار کردیا ہے جو دلیل کی چادر کو تارتار کرتے ہوئے آپے سے باہر ہو تا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سوشل میڈیا کے جنگجو سپاہی، گزشتہ چار پانچ سال کے دوران زبان درازی میں زیادہ ہنر دکھانے میں مصروف ہیں۔ اتفاق نہ کریں تو ذرا سوشل میڈیا پر کسی کے خلاف بھی کچھ جملے یا تصویر آراستہ کردیں پھر دیکھیں کہ قبروں میں سوئے ہمارے آباؤ اجداد کس طرح بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ کسی کی غلط فہمی یا مفروضے کو  دور کرنے کی کوشش کرنے کی جسارت پر آ پ’کمنٹس‘ پڑھنے کے بعد بس انہیں مٹاتے ہی چلے جائیں گے۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر کب ہم کہاں جارہے ہیں؟

محلوں یا چائے خانوں میں بیٹھک کا تصور تو محال ہوگیا ہے۔ اسی طرح بہت کم مختلف سوچ اور فکر کے افراد ایک ہی چھت تلے اکٹھے ہوجائیں تو یہ کمال ہی ہوگا اور ایسے میں یہ بحث کرنے کے بجائے کوئی ایسا موضوع تلاش کرتے ہیں جس کے ہم خیال بھی زیادہ ہوں۔ سچ پوچھیں تو اختلاف رائے کی گنجائش اب  کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔۔ کسی کے بیان کسی کی ناسازی طبیعت یا کسی کی معمولی سی حرکت پر بھپتی اڑانا اب’ قومی فریضہ‘  بن گیا ہے۔ مرد اور خاتون ہونے کی یہاں کوئی  تفریق  نہیں رہی۔  ہر کسی کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے نفرت کی دیوار میں انہیں چنتے ہی چلے جارہے ہیں۔  رہی سہی کسر اس ’ہیش ٹیگ‘  کی قیامت نے برپا کردی ہے۔ ذرا فرصت ملے تو جو‘  ان کے عنوان ہوتے ہیں، ان کا مشاہدہ کرلیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر تخلیقی صلاحیت والے یہ افراد اپنے اس ہنر کو مثبت پہلوؤں میں کیوں استعمال نہیں کرتے ۔

برداشت کا عنصر ختم ہوگیا ہے، اخلاقیات کی چڑیا اڑ کر نجانے کہاں کھو گئی ہے کہ لوٹ کر واپس نہیں آتی ۔  ایک سوشل میڈیا ہی کیا جناب ٹی وی چینل پر روز رات میں ہونے والی جنگ کے بعد اب اخبارات بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان اگر ہوتے  تو بے چارے شرمندہ  ہوچکے ہوتے  جب وہ  اخبار کے  حال ہی میں شائع ہونے والے ایک لفظ کو پڑھ لیتے اور سوچتے کہ صحافت اور الفاظ کی حرمت اس قدر گری کیوں۔

کسی کو کراری مغلضات سنا کر، کسی کی کردار کشی کرکے بلکہ بلاتصدیق مواد کو آگے بڑھا کر ہم اپنے مہذب اور تعلیم یافتہ ہونے کا کتنا ثبوت دے رہے ہیں۔ اس پر کچھ نہ کہنا ہی کافی ہے۔۔ درحقیقت سوشل میڈیا کے اس گروہ  کے سامنے کچھ بولتے یا  کچھ لکھتے ہوئے لفظوں کے انتخاب میں بہت احتیاط کی ضرورت پڑ جاتی ہے کیونکہ نجانے کب کس کو یہ الفاظ  نشتر بن کر چبھ جائیں اور پھر وہ چڑھائی کرے کہ الفاظ خود سراپا احتجاج بن جائیں کہ جناب  ہمیں کیوں زحمت دی تھی۔