ہم ایسی قوم کیوں بننا چاہتے ہیں جو تعلیم حاصل کیے بنا ہی مہذب معاشرہ بننے کے خواب دیکھتی ہے؟

ہم ایسی قوم کیوں بننا چاہتے ہیں جو تعلیم حاصل کیے بنا ہی مہذب معاشرہ بننے کے خواب دیکھتی ہے؟
پاکستان کا تعلیمی نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ تقریباً 40 سے 50 فیصد پرائمری سکول جانے والی عمر کے وہ بچے جو کہ ملک کا مستقبل ہیں، اردو اور انگریزی کا ایک جملہ بھی بولنے یا لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ تعلیم کو پوری دنیا میں وہ واحد ہتھیار سمجھا جاتا ہے جو ایک غیر مہذب معاشرے کو مہذب معاشرے میں بدل سکتی ہے، لیکن پاکستان کا تعلیم کے میدان میں مغربی دنیا کی طرح فروغ پانے کا خواب ابھی بھی تعبیر سے کوسوں دور ہے۔ یہ شعبہ جس کو وسائل ملنے کا تعلق جی ڈی پی کی بلند شرح سے مشروط ہوتا ہے اسے وافر مقدار میں وہ وسائل فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں جس کی بنا پر یہ ایک اعلیٰ پڑھی لکھی اور مہذب قوم کی تشکیل میں معاونت فراہم کر سکے۔

گو پاکستان کے آئین میں یہ بات درج ہے کہ 5 برس سے 16 برس کی عمر تک کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن اس کے باوجود تقریباً دو کروڑ چھبیس لاکھ بچے سکول جانے سے قاصر ہیں اور 46 فیصد سرکاری پرائمری سکول (ایک لاکھ چوبیس ہزار دو سو چوراسی پرائمری سکول) بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ پاکستان میں صرف چھیالیس فیصد بچے تعلیمی نظام میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں سے محض 7۔89 فیصد بچے میٹرک پاس کر پاتے ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ تعداد اور بھی کم ہے۔ تعلیم کا شعبہ بدقسمتی سے معیار کو بہتر اور برقرار رکھنے کی پلاننگ سے محروم ہے اور حکومت کی جانب سے مناسب توجہ نہ مل پانے کے باعث اس ناکامی کے مضمرات پورے معاشرے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔



یہ بھی دیکھیے: پاکستان میں تعلیم کی صورتحال







تعلیمی اداروں میں نئی اور جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں کی کمی ہے۔ خاص کر کہ سائنس کے مضامین کے حوالے سے تو کوئی خاص سامان فراہم نہیں کیا جاتا اور یہ کمی طلبہ کی سائنس کے میدان میں تحقیق یا نئی دریافت نہ کر پانے کی بڑی وجہ ہے۔ نتیجتاً وطن عزیز باقی ماندہ دنیا سے اس شعبے میں انتہائی پیچھے رہ گیا ہے۔ رٹا لگا کر علم کے حصول کی عادت طلبہ میں رجحان پا چکی ہے اور یہ طلبہ کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کے نقصانات سے وہ خود بھی واقف نہیں ہیں۔ اس رٹے کی عادت کی وجہ سے بیشتر طلبہ سائنسی تھیوریوں کو سمجھنے اور ان کی جدید دنیا میں افادیت اور اہمیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد محض ایک اچھی نوکری کا حصول اور نالج بڑھانے کا مقصد بہتر تنخواہ کا پیکج حاصل کرنا ہو وہاں اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ تعلیم کا معزز پیشہ یہاں محض استاد شاگرد کے رسمی رشتے اور تعلیمی درسگاہوں کی حدود تک محدود ہے۔ طلبہ کی ذہنی نشوونما اور اخلاقی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ یہاں تعلیم دینے کا واحد مقصد محض اچھے مسلمان اور محب وطن پاکستانی پیدا کرنا ہے۔ نصابی کتب میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین ماضی میں ہونے والی جنگوں کو بڑھا چڑھا کر جہاد کے طور پر بیان اور پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سرکاری سکولوں میں تنقیدی سوچ، اور دلیل و منطق پر مبنی مکالمے کا رجحان ناپید ہو چکا ہے۔

ہمارا تعلمی نظام قدرت پر تحقیق کرنے کے حق کو مسترد کرتا ہے اور فرسودہ خیالات پر مبنی ان چیزوں کی پیروی کرنے کا درس دیتا ہے جن کا تعلق اندھے عقائد سے ہوتا ہے۔ تعلیمی نظام کو ازسر نو تشکیل دے کر اسے جدید تصورات کے سانچے میں ڈھال کر اسے قوم اور معاشرے کیلئے بہتر اور مفید بنایا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ملک کو خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

مصنف مختلف ویب سائٹس کے لئے سیاسی اور سماجی معاملات پر لکھتے رہتے ہیں۔