'9 مئی کے قصوروار عمران خان'؛ شیخ رشید کا انٹرویو بھی ریکارڈ ہو گیا

جاوید چوہدری کے مطابق شیخ رشید کے انداز سے کسی قسم کی جھجھک محسوس نہیں ہو رہی تھی۔سارا انٹرویو انتہائی پرسکون ماحول میں ریکارڈ ہوا۔ جو قیاس آرائیوں اور افواہوں کا طوفان مچا ہوا تھا کہ شیخ رشید کو مار پڑی ہے یا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، ایسا کچھ نہیں تھا۔

'9 مئی کے قصوروار عمران خان'؛ شیخ رشید کا انٹرویو بھی ریکارڈ ہو گیا

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں عثمان ڈار اور صداقت علی عباسی کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور عمران خان کے قریبی ساتھی شیخ رشید کا انٹرویو بھی ریکارڈ ہو چکا ہے اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی مانند شیخ رشید نے بھی 9 مئی واقعات کا قصوروار عمران خان کو ٹھہرایا ہے۔ شیخ رشید نے سماء نیوز کے اینکر منیب فاروق کو انٹرویو کے لیے خود فون کیا اور انٹرویو اسلام آباد میں شیخ رشید کے گھر پر ہوا۔ شیخ رشید اپنے گھر پر پرسکون نظر آئے اور ان پر تشدد کے حوالے سے میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں سینیئر صحافی جاوید چوہدری نے بتایا کہ شیخ رشید نے انٹرویو دینے کے لیے اینکر منیب فاروق کو خود فون کیا۔ منیب فاروق شیخ رشید کی کال دیکھ کر حیران ہوئے کہ شیخ رشید روپوش ہیں تو ان کا فون کس طرح آ گیا۔ جب انہوں نے فون سنا تو دوسری جانب شیخ رشید خود مخاطب تھے۔ شیخ رشید نے کہا کہ میں اپنے گھر میں ہوں اور چاہتا ہوں کہ پہلا انٹرویو آپ کو دوں۔ منیب فاروق کو حیرت ہوئی کہ شیخ رشید غائب ہیں اور پورا ملک انہیں ڈھونڈ رہا ہے۔ عدالت میں کل بھی پولیس سے پوچھا گیا کہ شیخ رشید کہاں ہیں؟ پولیس اہلکاروں کی جج صاحب نے خوب کھنچائی کی کہ ایک شخص اپنے گھر سے غائب ہے اور ابھی تک اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں آئی۔ عدالت کی جانب سے پولیس کو شیخ رشید کو پیش کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی گئی اور کہا گیا کہ شیخ رشید کو یا جو اس گرفتاری کے ذمہ دار ہیں، انہیں عدالت میں پیش کریں۔ ایسے میں ان کا منیب فاروق کو ڈائریکٹ فون آنا کافی حیران کن تھا۔

جاوید چوہدری نے کہا کہ منیب فاروق نے شیخ رشید کا انٹرویو کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ انٹرویو کے لیے سٹوڈیو میں آئیں گے یا پھر میں آپ کے پاس آؤں۔ اس پر شیخ رشید نے کہا کہ آپ کو زحمت کرنی پڑے گی، آپ میرے گھر پر آ جائیں۔ کال کے بعد منیب فاروق نے انتہائی مناسب سوالات تیار کیے۔ کوئی سوال بھی غیر متوازن نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کے پرانے بیانیے کی حمایت میں یا اس کے خلاف کوئی سوال نہیں تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ٹیم کو لیا اور شیخ رشید کے گھر پہنچ گئے۔ وہ شیخ رشید کے گھر 'لال حویلی' نہیں بلکہ اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچے۔

صحافی نے بتایا کہ منیب فاروق کا خیال تھا کہ جب ہم ان کے گھر پہنچیں گے تو شیخ رشید کا برا حال ہو گا۔ عمومی طور پر جو لوگ غائب یا روپوش ہوتے ہیں، جب وہ واپس آتے ہیں ان کا بہت برا حال ہوتا ہے لیکن شیخ رشید کی حالت قطعی طور پر مختلف تھی۔ ان کی رنگت پہلے جیسی سرخ تھی اور ایسے مزے سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے تھے جیسے سیرو تفریح کر کے واپس آئے ہوں۔ اپنے ذاتی صاف ستھرے کپڑے اور ویسٹ کوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے۔ تازہ شیو کی تھی اور کلون لگایا ہوا تھا۔ گوچی کی جوتے پہنے تھے اور ابھی ابھی سگار ختم کیا تھا۔ وہ بہت کمفرٹ ایبل نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے میڈیا ٹیم کا زبردست قسم کا استقبال کیا۔ منیب فاروق نے شیخ رشید سے سوالات شروع کیے۔

جاوید چوہدری کے مطابق شیخ رشید کے انداز سے کسی قسم کی جھجھک محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ ایسا کوئی تاثر نہیں مل رہا تھا کہ شیخ رشید کے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہے۔ سارا انٹرویو انتہائی پرسکون ماحول میں ریکارڈ ہوا۔ جو قیاس آرائیوں اور افواہوں کا طوفان مچا ہوا تھا کہ شیخ رشید کو مار پڑی ہے یا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، ایسا کچھ نہیں تھا۔ کسی نے کہا کہ مروت صاحب سے ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ شیخ رشید کو کہاں کہاں چوٹیں آئی ہیں۔ کچھ نے کہا کہ انہیں الٹا لٹکایا گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ ان کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ سب افواہیں ثابت ہوئیں کیونکہ شیخ رشید کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔

شیخ رشید نے ہر سوال کا انتہائی تفصیل کے ساتھ جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں سیاست ترک نہیں کر رہا، سیاست میں ضرور کروں گا۔ انہوں نے عمران خان کے بارے میں کئی انکشافات کیے۔ یہ انٹرویو آج یا کل نشر کیا جائے گا۔

190 ملین پاؤنڈ کیس سے متعلق شیخ رشید سے سوال نہیں کیا گیا کیونکہ وہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ جب ان 190 ملین پاؤنڈ کی منظوری ہوئی تو اس وقت وہ کابینہ اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ تاہم سیاست، عمران خان اور سائفر کے بارے میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ تمام آرام دہ اور پرسکون ماحول کے باوجود شیخ رشید مکمل طور پر بدلے ہوئے ہیں۔ اب وہ پرانے شیخ رشید نہیں رہے جو کہتے تھے کہ جلا دو، گرا دو، توڑ دو، برباد کر دو، خون کی ندیاں بہا دو، گریبان سے پکڑو، کھینچ لو اور باہر پھینک دو۔ نواز شریف کے بارے میں جس طرح اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے تھے، یہ وہ شیخ رشید نہیں ہیں۔ اب یہ ایک دوسرے شخص ہیں جو بالکل وسط میں کھڑے ہیں اور اب انہیں عمران خان کے اندر بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں نظر آ رہی ہیں۔ انہیں اب عمران خان کی باتیں تکلیف دے رہی ہیں۔ شیخ رشید 9 مئی کے بعد تک عمران خان کو سپورٹ کرتے رہے تھے لیکن اب انہیں 9 اور 10 مئی کے جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں عمران خان کا قصور نظر آ رہا ہے۔

صحافی نے کہا کہ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ شیخ رشید کے ساتھ کوئی تشدد نہیں کیا گیا اور ان کی کمر اور چہرے پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں ہیں۔ وہ انتہائی پرسکون ہیں اور کسی قید تنہائی کا شکار نظر نہیں آئے۔ ان کے انٹرویو کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ شاید سٹریٹجی بدل گئی ہے اور اب جو بھی نیا شخص انٹرویو کے لیے منظر عام پر آئے گا وہ خود اپنے فون سے اینکر کے ساتھ رابطہ کرے گا۔ اسے کسی سٹوڈیو میں نہیں لے جایا جائے گا بلکہ اینکر کو خود ہی زحمت کرنا پڑے گی۔