اسلام آباد: ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر انسان کو اس کے حقوق ملنے چاہئیں۔ اس موقع پر انسانی حقوق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزارتِ انسانی حقوق کا کام صرف عمل کرنا ہے۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس شرعی عدالت نے کہا کہ آنکھیں بند کرنے سے کوئی نابینا نہیں بنتا۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ حقوق کا ہے اور جس کے جو بھی حقوق ہیں وہ اسے ملنے چاہئیں۔
درخواست گزار اوریا مقبول جان نے عدالت کو بتایا کہ بل بنتے وقت پوری اسمبلی نے بل کو منظور کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بل بنتے وقت میں اس سارے عمل میں شامل تھا اور بل پر کیا اعتراضات تھے، کیا بحث ہوئی، یہ سب کچھ عدالت کو بتانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ دو بلوں کو ملا کر ایک بل بنایا گیا تھا۔
سماعت کے دوران وکیل سینیٹر مشتاق نے عدالت کو بتایا کہ سینیٹ میں نیا بل جمع کروایا گیا اور کسی کو اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے۔
سماعت کے دوران خواجہ سراؤں کی فلاح کے لئے کام کرنے والی ببلی ملک نے عدالت کو بتایا کہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی اور ہم ٹرانسجینڈر بالکل مختلف ہیں۔ بہتر ہے کہ عدالت اس معاملے میں کسی جنس کے ماہر کی معاونت حاصل کرے۔ اس کے جواب میں اوریا مقبول جان نے بتایا کہ جنسی ماہر صرف دیکھ کر رائے دیتا ہے جبکہ ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بغیر جنس کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
دوران سماعت ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے کارکن نایاب نے عدالت سے استدعا کی کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث پر پابندی لگائی جائے۔ اسی بحث کی وجہ سے پشاور میں تین ٹرانسجینڈر افراد کو قتل کردیا گیا۔
عدالت نے سینیٹر مشتاق، فرحت اللہ بابر، الماس بوبی سمیت مختلف افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کر لیں۔ عدالت نے تمام فریقین کو اپنی گزارشات تحریری طور پر جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی ہے۔