'نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ماتھا لگانے کی ٹھان لی'

پارٹی کی جانب سے میاں صاحب کو بارہا یہ بات سمجھائی گئی کہ ان کی جانب سے جب بھی کسی جنرل یا ریٹائرڈ فوجی افسر پر تنقید کی جاتی رہی تو وہ کسی حد تک تو برداشت اور نظرانداز کی گئی لیکن جب ان کے محاسبے کی کوشش کی گئی اور کیسز بنائے گئے تو اس کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔

'نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ماتھا لگانے کی ٹھان لی'

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ماتھا لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور آنے والے دنوں میں نواز شریف سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور چار ججز پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہیں گے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی و کالم نگار جاوید چودھری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں نواز شریف کی جانب سے دیے گئے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے جاوید چودھری نے کہا کہ ن لیگ پریشان ہے کہ ابھی قائد کی واپسی ہوئی نہیں اور معاملات پھر 2017 سے شروع ہو گئے ہیں، ایسی صورت میں ن لیگ دوبارہ اقتدار میں کیسے آئے گی۔ نواز شریف نے بیان دیا تھا کہ چار جج بیٹھ کر کروڑوں عوام کے مینڈیٹ والے وزیر اعظم کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے آلہ کار تھے۔

جاوید چودھری کے مطابق نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات زیادہ تر کشیدہ ہی رہتے ہیں لیکن اگر کبھی نواز شریف نرمی پر مان بھی جائیں تب بھی یہ زیادہ دیر تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ 'آرام دہ' محسوس نہیں کرتے۔ کچھ عرصے بعد یہ اپنے دائیں بائیں ایسے لوگوں کا جمگھٹا لگا لیتے ہیں جو ان کے کان بھرنے لگتے ہیں۔ پھر یہ اپنی توپوں کا رخ جی ایچ کیو کی طرف کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی حکومت مدت مکمل کیے بغیر ہی ختم ہو جاتی ہے یا انہیں رخصت کر دیا جاتا ہے۔ اس بار نواز شریف نے نئے بیانیے میں جنرل فیض، جنرل باجوہ کے ساتھ ساتھ چار جج صاحبان کو بھی شامل کر لیا ہے۔

جن چار جج صاحبان کا ذکر نواز شریف نے کیا ان میں سے ایک جج، جسٹس اعجاز الاحسن، تاحال سپریم کورٹ میں موجود ہیں اور چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیف جسٹس بھی وہی ہوں گے۔ ایک ایسا جج جو آئندہ کچھ عرصے میں چیف جسٹس بننے والا ہے، ان کے ساتھ میاں صاحب نے لندن میں بیٹھے بیٹھے ہی ماتھا لگا لیا ہے۔ نواز شریف نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور اب وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیں گے اور ممکنہ طور پر ساری انتخابی مہم اسی بیانیے پر مبنی ہو گی۔

پارٹی کے مشاورتی اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کی ویڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں وہ ملک کے حالات خراب ہونے پر جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید سمیت 4 جج صاحبان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں معاف کرنا قوم کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ یہ معافی کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف آنے والے دنوں میں جنرل فیض، جنرل باجوہ اور چار جج صاحبان کا احتساب کریں گے جس میں سے ایک مستقبل کا چیف جسٹس بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ احتساب کی بنیاد پر الیکشن لڑ رہے ہیں تو آپ کو الیکشن لڑنے کون دے گا؟ اس تنازعے سے نیا بحران پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔

پارٹی کی جانب سے میاں صاحب کو بارہا یہ بات سمجھائی گئی کہ ان کی جانب سے جب بھی کسی جنرل یا ریٹائرڈ فوجی افسر پر تنقید کی جاتی رہی تو وہ کسی حد تک تو برداشت اور نظرانداز کی گئی لیکن جب ان کے محاسبے کی کوشش کی گئی اور کیسز بنائے گئے تو اس کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے احتساب کے لیے کیسز بنائے گئے تو مخالفت اور عناد کے باوجود فوج کا ادارہ جنرل مشرف کی حمایت میں کھڑا ہو گیا۔ نتیجے کے طور پر ن لیگ کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اب بھی اگر جنرل فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف کارروائی کریں گے تو معاملات وہیں جا پہنچیں گے جہاں 2017 میں تھے۔ تاہم اس سمجھانے بجھانے کا نواز شریف پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور انہوں نے کل کے بیان میں ایک مرتبہ پھر جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام لے لیا۔

اگر فرض کر لیا جائے کہ 2017 میں ن لیگ کی حکومت کو جنرل فیض اور جنرل باجوہ نے مل کر ہٹایا تھا تو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار تھے، جنرل فیض نہیں اور جنرل نوید مختار نواز شریف کے رشتہ دار بھی ہیں۔ اگر نواز شریف کو ہٹانے میں آئی ایس آئی ملوث تھی تو آپ کے رشتہ دار بھی اس میں شامل تھے کیوںکہ ڈی جی تو وہ تھے اور اگر ڈی جی کی اتنی رٹ نہیں تھی کہ ان کے ماتحت افسر یعنی ڈی جی سی فیض حمید نے اتنی بڑی سازش کر لی تو فوج کی چین آف کمانڈ ٹوٹ گئی۔ اس پر اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ پھر تو وہاں ہر شخص آزاد ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا محاسبہ ہو گا تو نواز شریف اپنے رشتے دار جنرل نوید مختار کے ساتھ کیا کریں گے؟

بعد ازاں، 2019 میں آپ نے اسی جنرل باجوہ کو بطور آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع دلوا دی۔ اس کے لیے آپ نے لندن میں باقاعدہ میٹنگ بلائی۔ حسین نواز سے کہا کہ قرآن مجید لے کر آئیں۔ اس میٹنگ میں اور لوگ بھی تھے۔ ان کے سامنے قرآن پر حلف لیا گیا کہ پاکستان جا کر جنرل باجوہ کی ہر صورت حمایت کرنی ہے اور اس کے بدلے میں کچھ نہیں مانگیں گے۔ ان کو ہر صورت توسیع دینی ہے۔ انہوں نے خود یہ فیصلہ کیا، قرآن پاک پر حلف لیا کہ یہ انفارمیشن باہر لیک نہیں ہونی چاہئیے۔ کہا جاتا ہے کہ رانا تنویر نے پاکستان آتے ہی یہ تمام تفصیلات لیک کر دیں۔ اسی اجلاس میں خواجہ آصف کو تمام تر معاملات ٹھیک کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ خواجہ آصف کے جنرل باجوہ سے اچھے تعلقات تھے۔ تاہم بعد ازاں پارٹی کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ خواجہ آصف کو نواز شریف نے کھلے دل سے حمایت کرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ حکومت سے پلان مانگ کر، نخرے دکھا کر ماننا تھا لیکن خواجہ آصف نے نواز شریف سے منسوب کر کے یہ پیغام دیا۔

اگر پاناما کیس جنرل باجوہ لائے، گو کہ وہ تب آرمی چیف نہیں تھے، پھر انہوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ کروا دیا، ان کی حکومت بھی گرا دی، 2018 میں عام انتخابات بھی کروا دیے اور عمران خان کو جِتوا بھی دیا تو اگر ایک بار آپ اس شخص سے ڈسے جا چکے تھے تو آپ کو کس نے کہا تھا کہ 2019 میں اسی شخص کو تو سیع دلوائیں؟ اس کا کوئی جواز تاحال کسی کو نہیں ملا۔

2022 میں اسی جنرل باجوہ کے ساتھ ڈیل کر کے آپ نے دوبارہ اپنی حکومت بنا لی اور بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا لیا۔ اسی شخص سے پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے مدد بھی مانگ لی تاہم جنرل باجوہ نے اس سے انکار کر دیا۔ آپ نے شہباز شریف کے ذریعے جنرل باجوہ کو 6 مرتبہ توسیع کی آفر بھیجی اور کہا کہ اگلے انتخابات تک عہدے کو جاری رکھیں لیکن کچھ وجوہات کی بِنا پر ایسا نہیں ہو سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف چاہتے تھے کہ جنرل باجوہ کو دوسری بار بھی توسیع ملے لیکن اس بار نواز شریف نے مزاحمت کی اور جنرل باجوہ کو توسیع نہ مل سکی۔ آپ کی اپنی حکومت اور بھائی کی جانب سے بار بار جنرل باجوہ کو توسیع کی آفر کی گئی تو آپ کو اپنے بھائی کا محاسبہ بھی کرنا چاہئیے تھا کہ وہ کس بنیاد پر بار بار جنرل باجوہ کو توسیع کی آفر کر رہے ہیں۔