نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف بھرپور طریقے سے انتخابی میدان میں اترتی تھی اور 1997 کے انتخابات کے نتیجے میں سندھ میں صوبائی حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہی تھی لیکن مشرف کے مارشل لا کے بعد سے سندھ میں مسلم لیگ کی سرگرمیاں کم ہوتی گئیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایک تو کراچی شہر کی امن و امان کی صورت حال تھی اور دوسرا ن لیگ کی electables کی سیاست۔ مارشل لا کے بعد جیسے ہی الیکٹیبلز ادھر ادھر ہوئے، پارٹی بھی پنجاب تک محدود ہو کر رہ گئی۔
لیکن اب ایک بار پھر ن لیگ سندھ، خصوصاً کراچی میں بھرپور پارٹی سرگرمیاں کرتی نظر آرہی ہے۔ اس وقت ن لیگ کے کارکنان پارٹی کی سطح پر کراچی شہر میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے شہر کی مختلف مارکیٹس، شاہراہوں اور مساجد اور دیگر اہم مقامات پر سپرے مہم کرتے اور عوام میں حفاظتی کٹس تقسیم کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہ مہم گزشتہ کئی دنوں سے جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے اس مہم میں الیکٹیبلز کے بجائے عام مڈل کلاس کارکنان زیادہ بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں جن میں زیادہ تعداد سوشل میڈیا پر متحرک کارکنان کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ن لیگ کے سوشل میڈیا کارکنان سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ گراؤنڈ پر بھی کافی متحرک ہیں جو کہ کراچی کی گھٹن زدہ سیاست میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
گذشتہ انتخابات کی مہم میں بھی شہباز شریف نے کراچی کا دورہ کیا اور کراچی کی ایک قومی اسمبلی کی سیٹ سے الیکشن بھی لڑا جہاں کافی سخت مقابلے کی بعد وہ الیکشن تو نہ جیت سکے لیکن پارٹی کارکنان کو کافی متحرک کر گئے۔ ن لیگ کے ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر 2018 کے الیکشن شفاف ہوتے تو شہباز شریف کراچی سے فیصل واؤڈا کے مقابلے میں الیکشن جیت چکے تھے۔ اس کے علاوہ ن لیگ گذشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی کراچی کے مضافاتی علاقوں سے چند سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی جس کی وجہ سے پارٹی کارکنان کو کافی حوصلہ ملا تھا۔
اگرچہ کراچی میں سپرے مہم کے دوران موجودہ وبائی صورت حال کے تناظر میں ن لیگ کے پارٹی پرچم اور نعرے بازی سے اجتناب برتا گیا لیکن سابق سینیٹرز نہال ہاشمی اور کراچی سے ن لیگ کے منتخب بلدیاتی نمائندے پارٹی اور سوشل میڈیا کارکنان کی بڑی تعداد نظر آ رہی ہے۔
ن لیگ کی کراچی میں بھرپور پارٹی سرگرمیوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں ن لیگ سندھ خصوصاً کراچی میں بھرپور تیاری سے میدان میں اترے گی اور مخالفین کو ٹف ٹائم دے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو جہاں ن لیگ کا صرف پنجاب کی پارٹی ہونے کا تاثر زائل ہوگا وہیں ملکی سیاست میں بھی ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔
مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔