ملکہ غزل اقبال بانو ، جنہوں نے غزل گلوکاری کی حرمت کو نیا رنگ دیا

ملکہ غزل اقبال بانو ، جنہوں نے غزل گلوکاری کی حرمت کو نیا رنگ دیا

دلوں کے تار چھیڑنے والی عظیم گلوکارہ کی 12ویں برسی پر تحریر


اقبال بانو برقعہ پہن کر لاہور کے ریگل سنیما پر پہنچی تھیں اور ڈری سہمی تھیں کہ نجانے کیا ہوگا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ صرف یہ سوچ رہی تھیں کہ  کیا تاثرات ہوں گے فلم بینوں کے جب ان کا گیت پردہ سیمیں کی زینت بنے گا۔ طرح طرح کے خدشات اور تحفظات تھے جو ان کے دل و دماغ میں آندھی طوفان کی طرح چل رہے تھے۔


ذکر ہورہاہے 1954کا جب ’گمنام‘ سنیما گھروں میں سجی تھی۔ جس کے لیے اقبال بانو نے ایک غزل گنگنائی تھی۔ جسے دیکھنے کے لیے ان کا جوش و خروش عروج پر تھا۔


 فلم ’گمنام‘   کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔ یہ بات نہیں تھی کہ اقبال بانو نے اس سے پہلے کسی فلم کے لیے نغمہ سرائی نہ کی ہو، وہ تو  1949میں آئی فلم ’غلط فہمی‘ کے ذریعے پس پردہ گلوکاری کرچکی تھیں۔ جبکہ اسی سال ریلیز ہونے والی  اُن کی ایک اور فلم  ’مندری‘ میں بھی تین گیت شامل تھے۔ جس کے موسیقار جے اے چشتی نے اس مدھر اور کھنک دار آواز کی حامل گلوکارہ کے بارے میں کہا تھا کہ یہ بہت جلد ہم عصر گلوکاراؤں کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ مگر یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ ’مندری‘ کے بعد اقبال بانو کو  آواز کا جادو جگانے والے کے لیے کم و بیش دو سال لگے اور یہ تخلیق ’غیرت‘ تھی۔


اس دوران اقبال بانو ریڈیو کے لیے مختلف گیت ریکارڈ کراکے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں۔ 1954میں جب ہدایتکار انور کمال پاشا نے ’گمنام‘ بنانے کا ارادہ کیا تو موسیقار ماسٹر عنایت حسین پر واضح کردیا کہ فلم میں کوئی ہلکے راگوں کا  نیم کلاسیکل گانا ضرور شامل ہو اور موسیقار ماسٹر عنایت حسین جانتے تھے کہ اس طرح کے گانے کو اقبال بانو کے علاوہ کوئی اور گلوکارہ نہیں گاسکتی۔  جنہوں نے اس اکلوتے گیت میں ایسی ڈوب کر گلوکاری کی ہر جانب ان کی آواز کا چرچا پھر ہونے لگا۔ کئی نے تعریفوں کے پل باندھے اور یہاں تک کہا گیا کہ ’گمنام‘ کی کامیابی میں اس گانے نے مرکزی کردار ادا کیا تو ابتدا میں اقبال بانو کو یقین نہ آیا اور اپنی اسی یقین دہانی کے لیے وہ اِس وقت سنیما گھر میں موجود تھیں جبکہ آس پاس بیٹھے فلم بین اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کے درمیان اقبال بانو بھی ہیں۔


فلم ’گمنام‘ شروع ہوئی  اور جب انٹرویول کے بعد صبیحہ خانم پر عکس بند کیا گیا گیت ’پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘ اسکرین پر جلوہ افروز ہوا تو اقبال بانو کی  تو فرط جذبات سے آنکھیں نم ہوگئیں۔ گانے کے  ہر انترے اور لے  پر فلم بین تالیاں بجا بجا کر ساتھ دے رہے تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب اقبال بانو کو اپنی گلوکاری پر ہی نہیں موسیقار ماسٹر عنایت حسین کی دھن پر بھی رشک آیا۔



ملکہ غزل کے لقب سے مشہور ہونے والی اقبال بانو نے بھارتی شہر دہلی میں 1935میں  مغینہ زہرہ بائی کے یہاں آنکھ کھولی۔ اقبال بانو نے موسیقی کی بنیادی تعلیم استاد چاند خان اور استاد صابری خان سے حاصل کی، جنہوں نے انتہائی کم عمری میں ہی اقبال بانو کو  راگوں سے شناسائی کرائی۔تقسیم ہند کے بعد ملتان آکر آباد ہوئیں۔ جہاں ان کا یہ فنی سفر تھما نہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگاکہ اقبال بانو نے ہلکی پھلکی گلوکاری کے بجائے غزل گائیکی میں اپنی خاص دلچسپی دکھائی۔ جبھی ان کی گائی ہوئی فلمی اور غیر فلمی غزلیں زبان زد عام ہوئیں۔ 1955میں فلم ’قاتل‘  میں قتیل شفائی کا یہ کلام ’الفت کی نئی منزل کو چلا‘ بھلا کیسے ذہنوں سے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح1957 میں نمائش پذیر فلم ’عشق لیلیٰ‘ میں گایا ہوا کلام ’ستاروں تم تو سو جاؤ‘ میں اقبال بانو کی گلوکاری کا معیار عروج پر رہا۔ جبکہ ’محبت کرنے والے‘ اور ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘  میں اقبال بانو نے جلترنگ بجادیے۔


ملکہ غزل اقبال بانو نے یوں تو کئی جید اور نامور شعرا کا کلام سروں میں ڈالا لیکن فیض صاحب کے شاہکار ’دشت تنہائی‘ کو پیش کرکے وہ غیر معمولی شہرت حاصل کرگئیں۔ یہ نظم اقبال بانو کو کیسے ملی، اس کے پس پردہ بھی خاصی دلچسپ کہانی ہے۔ اقبال بانو کے مطابق موسیقار  ڈائریکٹر عمر مہاجر نے ایک دن انہیں بلایا اور کہا کہ انہوں نے اقبال بانو کے لیے ایک نظم ’دشت تنہائی‘ ڈھونڈی ہے لیکن جو اس کلام کا مطلب او ر مفہوم ہے‘ اسے سُروں میں بیان کرنا ہوگا۔ اس نظم کا سارا تاثر سُروں میں آنا چاہیے۔ ابتدا میں تو اقبال بانو ٹال مٹول سے کام لیتی رہیں۔ جب اس کی طرز نہ بن سکی تو دو تین کمپوزر کو طلب کرکے ان کے  ذمے یہ کام لگایا گیا لیکن وہ بھی نظم کے معیار کو سُروں میں نہ ڈھال سکے۔ تب اقبال بانو نے کہا کہ اس کی طرز کے لیے کسی پڑھے لکھے کمپوزر کی ضرورت ہوگی، جو الفاظ کو سمجھ کر دھن ترتیب دے۔ اسی لیے عربی میں ایم اے کرنے والے مہدی ظہیر کو بلایا گیا، جنہوں نے دو تین دن میں ہی ’دشت تنہائی‘ کی طرز بنا کر حیران کردیا، ملکہ غزل پراس بات کا زور دیا گیا کہ وہ بغیر موسیقی کے بھی اس کلام کو مکمل ردھم کے ساتھ گائیں، جنہوں نے اس ناممکن کو بھی ممکن کر ڈالا اورپھر کیا تھا


یہ شہرہ آفاق کلام جیسے اقبال بانو کی شناخت بن گیا۔



فیض احمد فیض کے کلام کو خصوصی طور پر پسند کرنے والی اقبال بانو نے ضیا دور میں مشہور کلا م ’ ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے‘ سنا کر حکومتی ایوانوں کو لرزہ دیا تھا۔ 1985میں جب فیض صاحب کی سالگرہ کے موقع پر لاہور کے الحمرا آڈیٹوریم میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تو یہ وہ زمانہ تھا جب ٹی وی اور ریڈیو پر فیض کے کلام کو پیش کرنے کی بندش تھی۔  اس کشیدہ ماحول میں جب اقبال بانو نے فیض صاحب کا کلام ’ ہم دیکھیں گے‘ گایا تو سماں بندھ گیا۔ جب وہ اس کلام کو ختم کرتیں تو مہمانوں کی فرمائش اور بڑھتی جاتی۔ یہاں تک کہ پولیس نے ہال کی بتیاں تک بجھا دیں لیکن عوامی جوش و خروش ایسا تھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی، آڈیٹوریم کے اندر اور باہر موجود افراد یک زبان میں اقبال بانو کا ساتھ دے رہے تھے ۔ اس جرات پر  اقبال بانو پر ٹی وی اور ریڈیو پر گانے کی غیر اعلانیہ پابندی لگادی گئی جبکہ یہ نظم، ملکہ غزل اقبال بانو سے دنیا کے ہر کونے میں خصوصی فرمائش پر سنی جانے لگی۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا یہ کلام مزاحمتی تحریکوں میں علامتی بیانیے بن گیا۔ اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ  ڈیڑہ سال قبل بھارت میں جب مسلمانوں کے خلاف متنازعہ شہریت قوانین نافذ کیے گئے تو اقبال بانو کے اسی کلام کو گا کر مظاہرین اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے۔



  اقبال بانو کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ  70کی دہائی میں جب ’جشن کابل‘ منایا جاتا تو انہیں  خصوصی طور پر پاکستان سے اس میں شرکت کی دعوت دی جاتی۔ جو مختلف تقریبات میں نغمہ سرائی ہوتی۔ یہاں تک اقبال بانو کے سُر  افغان بادشاہ کے محل میں بھی گونجتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ 71کے قریب فارسی غزلیں اور نظمیں اس مہارت سے پیش کرتیں کہ کئی افغان مہمان تو انہیں اپنا ہم وطن خیال کرتے۔


جس طرح ملکہ غزل کو گلوکاری کا شوق رہا، اسی طرح وہ چاہتی تھیں کہ تعلیم کا جو سلسلہ ان کا منقطع ہوا ہے اسے جاری رکھیں لیکن بار بار کی کوششوں کے باوجود  پیشہ ورانہ مصروفیات کی بنا پر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں جبکہ ڈرائیونگ کا بھی انہیں حد سے زیادہ لگاؤ رہا۔ کہتی تھیں کہ ڈرائیونگ  باقاعدہ سیکھی لیکن جب بھی اسٹیرائنگ سنبھالتیں تو اپنی غزلیں اور گیت کے کوئی نہ کوئی بول یاد آجاتے۔ کوئی بھولا بسرا مکھڑا یا انترا ذہن میں گونجنے لگتا، جس کو ذہن نشین کرتے ہوئے دو بار ان کی گاڑی اس قدر تباہ کن حادثات سے دوچار ہوئی کہ گھر والوں نے کسی جانی نقصان سے محفوظ رہنے کے لیے اقبال بانو  پر ڈرائیونگ کی پابندی لگادی.