یوسفی - لمحه منجمد کی داستان

یوسفی - لمحه منجمد کی داستان
مشتاق احمد یوسفی سے پہلی ملاقات ان کی کتاب زرگزشت کے ذریعہ سے ہوئی۔ پوری کتاب تو دور رہی، صرف دیباچہ ہی پڑھا تھا اور "تیز مہکار چہکار نہیں بھاتی۔ رات کی رانیاں۔ دونوں قسم کی۔ دور کسی اور کے آنگن ہی سے مہک دیتی اچھی لگتی ہیں" یا "آئینہ دیکھتا ہوں تو قادر مطلق کی صناعی پر جو ایمان ہے وہ کبھی کبھی متزلزل ہو جاتا ہے" جیسے جملے پڑھے تو احساس ہوا کہ یہ ملاقات کسی معمولی مزاح نگار سے نہیں ہو رہی۔

" زرگزشت" سے یوسفی نے اردو مزاح میں اپنا مقام ہی نہیں اپنی ایک نئی جہت بنا لی

ساٹھ کی دہائی میں جب یوسفی کی کتاب "چراغ تلے" شائع ہوئی تو ناقدین کا خیال تھا کہ یہ ایک اچھی کوشش ہے اور مصنف محنت کر کے اردو مزاح میں اپنا مقام بنا سکتا ہے۔ دوسری کتاب "خاکم بدہن" آدم جی ایوارڈ کی مستحق ٹھہری اور تیسری کتاب " زرگزشت" کی اشاعت کے بعد یوسفی نے اردو مزاح میں اپنا مقام ہی نہیں اپنی ایک نئی جہت بنا لی۔ ایک ایسی جہت جس میں مزاح نگار اپنے قاری کو ہنسانے کی دانستہ کوشش کرتا نظر نہیں آتا۔ یہ مزاح نگاری سے بڑھ کر نثر نگاری ہے جس میں تحریر ایک پرسکون دریا کی روانی لیے ہوئے بڑھتی ہے اور اپنی برجستگی سے اپنے قاری کو کبھی مسکرانے اور کبھی قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیتی ہے اور کبھی کبھی تو رلا بھی دیتی ہے۔

"مجھے ترقی دینی ہے تو پدر سوختہ کو برانچ بھی کھولنی پڑے گی"

یوسفی کی پہلی دو کتب مختلف موضوعات پر مضامین کا مجموعہ ہیں لیکن " زرگزشت" ان کے بینکنگ کے دور کی آپ بیتی ہے۔ اس سے پہلے بھی کچھ مزاح نگار اپنی پیشہ ورانہ زندگیوں کا بیان مزاحیہ انداز میں لکھ چکے تھے لیکن " زرگزشت" اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس آپ بیتی میں یوسفی کہیں بھی مرکزی کردار نظر نہیں آتے۔ بس کہیں کہیں سپورٹنگ رول میں نظر آتے ہیں۔ مسٹر اینڈرسن، نحاس کنجو، سیف الملوک خان اور عباد الرحمان قالب وغیرہ اس آپ بیتی کے اہم کردار ہیں۔ یوسفی نے خود ہی کہیں لکھا تھا کہ عام آدمی زندگی میں صرف نکاح اور جنازے پر ہی مرکزی کردار ہوتا ہے۔ " زرگزشت" کو خاکہ نگاری بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کتاب کے کردار یکجہتی شخصیت کے کیری کیچر نہیں، جیتے جاگتے انسان ہیں، اپنے تمام عیوب اور تعصبات سمیت۔ تمام کردار اپنا اپنا ایک غالب رنگ لیے ہوے ہیں۔ وہ مسٹر اینڈرسن کا مقامی ملازمین سے طنز بھری گفتگو ہو یا خان سیف الملوک خان کا دبنگ انداز، یوسفی ان تمام رنگوں کو مساوی مہارت سے پینٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ خان صاحب کے بارے میں چند جملے ملاحظہ کیجئے۔

"ایک دن کہنے لگے، ایک درخواست اس مضمون کی لکھ دیجئے کہ مجھے ترقی دے کر مردان کا مینجر بنایا جائے۔ زور پیدا کرنے کے لئے آخر میں یہ بڑھا دیجئے کہ اس علاقے میں جو رقمیں ڈوبیں گی انہیں سوائے میرے کوئی تخمیر وصول نہیں کر سکتا۔ ہم نے کہا مگر مردان میں تو بینک کی کوئی شاخ نہیں ہے۔ بولے مجھے ترقی دینی ہے تو پدر سوختہ کو برانچ بھی کھولنی پڑے گی"۔

کچھ گم صم لوگ اس دیوار کی مانند تڑختے ہیں جس کی مہین سی دراڑ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نیو اندر ہی اندر کسی صدمے سے زمین میں دھنس رہی ہے۔



ان کی چوتھی کتاب "آب گم" بھی کچھ کرداروں ہی کی داستان ہے۔ ان دو کتب میں یوسفی مزاح نگاری سے زیادہ کردار نگاری کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر کردارکی بنت اس محبت اور مہارت سے کی گئی جس کی مثال انگریزی ادب میں تو ملتی ہے، اردو ادب میں نہیں۔ یہ کردار نگاری کردار کا مذاق نہیں اڑاتی بلکہ اس کی شخصیت کی ہر پرت پر کبھی ہنساتی ہے اور کبھی رلاتی ہے۔ اپنے کردار "قبلہ" کے بارے میں لکھتے ہیں،

"وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آدمی اندر سے ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ اور یوں ٹوٹتا ہے! اور جب ٹوٹتا ہے تو اپنوں بیگانوں، حد یہ ہے کہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے بھی صلح کر لیتا ہے۔ یعنی اپنے آپ سے۔ اسی منزل پر بصیرتوں کا نزول ہوتا ہے۔ دانش و بینش کے باب کھلتے ہیں۔ ایسے بھی محتاط لوگ ہوتے ہیں جو پیکار و فشار زیست سے بچنے کی خاطر خود کو بےعملی کے حصار عافیت میں قید رکھتے ہیں۔ یہ بھاری اور قیمتی پردوں کی طرح لٹکے لٹکے ہی لیر لیر ہو جاتے ہیں۔ کچھ گم صم لوگ اس دیوار کی مانند تڑختے ہیں جس کی مہین سی دراڑ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نیو اندر ہی اندر کسی صدمے سے زمین میں دھنس رہی ہے۔ بعض لوگ چینی کے برتن کی طرح ٹوٹتے ہیں کہ مسالے سے آسانی سے جڑ تو جاتے ہیں مگر بال اور جوڑ پہلے نظر آتا ہے، برتن بعد میں"۔

کلام کی یہ قدرت شائد ہی اردو مزاح میں کہیں اور ملے۔

"ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ ناسٹلجیا اسی لمحہ منجمد کی داستان ہے"

ان اکثر کرداروں میں مگر ایک قدر مشترک ہے اور وہ قدر ہمارا ایک قومی وصف ہے۔ ناسٹلجیا۔ اگر شاہ جی اپنے افریقہ میں بیتے دنوں کو یاد کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تو قبلہ کراچی میں ہر ایک کو بھارت کی اپنی حویلی کی تصویر دکھا کر کہتے ہیں "یہ چھوڑ کر آئے ہیں"۔ یوسفی کی تحاریر ناسٹلجیا، جس کا ترجمہ وہ یادش بخیریا کرتے ہیں، کا تفصیلی مطالعہ ہیں۔ وہ ماضی کو ایشیائی ڈراموں کا اصل ولن کہتے ہیں۔ یوسفی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یادش بخیر یا صرف ماضی کو یاد ہی نہیں کرتا بلکہ ماضی کی تشکیل نو کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ لکھتے ہیں "پاستان طرازی کے پس منظر میں مجروح آنا کا طاؤسی رقص دیدنی ہوتا ہے کہ مور فقط ناچ ہی نہیں اپنا جنگل بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ ناسٹلجیا اسی لمحہ منجمد کی داستان ہے"۔

آج لمحہ منجمد کی داستان سنانے والا ہم میں نہیں رہا۔ یوسفی کے بارے میں وہی کہا جا سکتا ہے جو انہوں نے اپنے ایک کردار کے بارے میں لکھا تھا کہ پھول جو کچھ زمین سے لیتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اسے لوٹا دیتے ہیں۔ یوسفی تمام ہوئے۔ عہد یوسفی کبھی تمام نہیں ہو گا کہ دوبارہ ایسا مزاح نگار اب شائد کبھی پیدا نہ ہو۔

مصنف سابقہ زندگی میں صحافی رہے ہیں، اب امریکہ میں ایک بینک سے منسلک ہیں اور کبھی کبھار کچھ لکھ دیتے ہیں۔