70 کی دہائی کے وسط میں شہر کراچی کے علاقے موسیٰ لین، لیاری میں' بسم اللہ بلڈنگ' زمیں بوس ہوئی تھی اسے شہر کراچی کی پہلی منہدم ہونے والی عمارت تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک کتنی عمارتیں زمیں بوس ہوئیں؟ اور نتیجتا کتنا جان و مال کا نقصان ہوا ؟اسکے اعدادوشمار کہیں دستیاب نہیں- یہ وہی شہر کراچی ہے جسے ' عروس البلاد' کہا جاتا تھا مگر افسوس آج مملکت خداداد کاسب سے بڑا شہر' کراچی' کسمپرسی کا شکار نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجوہات شہری منصوبہ بندی کی کمی ، اداروں کی عدم دلچسپی ، حدود کی بے ضابطگی اور ترقیاتی ا ور انتظامی وسائل کی کمی ہے۔ کہیں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں تو دوسری طرف بےہنگم ٹریفک ہے گلی کوچوں حتیٰ کے نالوں تک میں گندگی کے ڈھیرہیں۔
اسی شہر کراچی کے مکیں ایک جانب بجلی کی کمی سے پریشان ہیں تو دوسری جانب پانی کا قحط ان کے لئے عذاب جاں سے کم نہیں بقول ایک دوست کے ' کراچی والوں کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے کہ دن بھر محنت مزدوری کرکے آؤ پھر خالی کنستر اٹھا کر پانی کی تلاش میں نکل جاؤ' اس کے ساتھ ساتھ شہر کراچی کے مکینوں کا ایک بنیادی مسئلہ رہائش کی قلت ہے جبکہ طلب میں اضافہ واضح ہے۔ متوسط طبقہ ہو یا کم آمدنی والے طبقہ سب کو رہائش کے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ حکومتی ادارے رہائش کی فراہمی میں ناکام نظر آتے ہیں۔رہائش کے ساتھ ساتھ زمین کے استعمال سے متعلق اعداد و شمار دستیاب نہیں جو شہری حکمرانی و منصوبہ بندی کے لئے بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔
ایسے حالات میں جب حکومتی ادارےشہریوں کو چھت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے تو ' مکانات بنانے والے ٹھیکاداروں اور سرمایہ کاروں' کو سازگار ماحول میسر آیا اور سستی رہائش کے نام پر ایک نئی طرز کا کاروبار چل نکلا جس کے نتیجے میں پچھلی تین دہا ئیوں میں شہر کراچی میں حکومتی اداروں کے عملے کی ملی بھگت سے ہزاروں کی تعداد میں ناقص تعمیرات سامنے آئیں اور آج اس کے ثمرات آئے دن زمیں بوس ہونے والی کثیرا لمنزلہ رہائشی عمارتوں کی صورت سامنے آرہے ہیں.
جو اس شہر کراچی کو 'مخدوش شہر ' ظاہر کرتے ہوئے اس حقیقت کو اُجاگر کررہی ہیں کہ عمارات کی تعمیر کے لیے یہاں نہ کوئی عملاً نہ کوئی منصوبہ بندی نظر آتی ہے اور نہ ہی معیار اور ضابطے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ اس شہر کراچی کو ان نام نہاد ٹھیکے داروں ( بلڈر اور ڈیویلپرز) اور سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کے عوض اپنا حصہ وصول کرکے حکومتی ادارے غفلت کی نیند سو چکے ہیں۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 70 کی دہائی کے وسط میں شہر کراچی کے علاقے موسیٰ لین، لیاری میں' بسم اللہ بلڈنگ'کے زمیں بوس ہونے کے سانحے کے بعد سے آج تک ان گنت عمارتیں زمیں بوس ہوئیں مگر افسوس کہ حکومتی اداروں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب نہ دی جس کی بدولت مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے-
جولائی 2009 میں کراچی کے علاقے لی مارکیٹ میں 5منزلہ رہائشی عمارت مہندم ہوئی جس کے نیتجے میں کئی افراد جان کی بازی ہار گئے تھے- مذکورہ عمارت پندرہ سال قبل تعمیر ہوئی تھی اور اس میں 25کے قریب خاندان آباد تھے تاہم ایک سال قبل 2008 میں اس پر کچھ نئی تعمیرات کی گئی تھیں۔ – اسی طرح 6 اگست 2011 کو کراچی کے گنجان آباد علاقے موسیٰ لین, لیاری میں پانچ منزلہ پرانی عمارت منہدم ہوئی جس میں 18 افراد ہلاک ہوئے۔ جولائی 2017 میں شہر کراچی کے علاقےلیاقت آباد نمبر 9 میں پیلا اسکول کے قریب تین منزلہ عمارت زمین بوس ہوئی جس میں 9 خاندان قیام پذیر تھے۔ پھرفروری 2019 میں ملیر کے علاقے جعفر طیار سوسائٹی میں 3 منزلہ عمارت گر گئی جس میں 4 خاندان رہائش پذیر تھے۔
ماضی قریب کی اگر بات کی جائے تو دسمبر 2019 میں رنچھوڑ لین سومرا گلی میں پندرہ سال قبل تعمیر ہونے والی 6 منزلہ عمارت زمیں بوس ہوئی تھی۔ احسن اقدام یہ رہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام نے عمارت کو مخدوش قرار دیتے ہوئے اسے مکینوں سے خالی کروا دیا تھا تو کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ اس سے قبل عمارت میں 25 خاندان آباد تھے - مارچ 2020 میں کراچی کے علاقے گلبہار میں گرنے والی عمارت 30 انسانی جانوں کو نگل گئی تھی جبکہ مجموعی طور پر 3 عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا کیونکہ ایک رہائشی عمارت دیگر 2 ملحقہ عمارتوں پر گر گئی تھی۔
دو ماہ قبل ، اپریل 2020کے اوائل میں ، کراچی کے علاقے گولیمار کی پھول والی گلی میں 72 مربع گز پر 5 منزلہ رہائشی عمارت اپنی جگہ سے کھسک کر ٹیڑھی ہوگئی تھی مذکورہ عمارت ایک سال قبل تعمیر کی گئی تھی اور اس میں 10 خاندان آباد تھے- جبکہ ایک ماہ قبل، مئی 2020 میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد انگارہ گوٹھ میں6 منزلہ رہائشی عمارت ٹیڑھی ہو گئی تھی ۔اس عمارت میں تیسری منزل تک رہائش تھی جبکہ عمارت ٹیڑھی ہونے کے باعث اطراف کی عمارتوں میں بھی دراڑیں پڑ گئی تھیں-
عمارت زمیں بوس ہونے کا تازو ترین سانحہ رواں ہفتے پیش آیا جب 7 جون 2020 کو کراچی کے گنجان آبادی والے علاقے لیاری، کھڈا مارکیٹ میں پانچ منزلہ رہائشی عمارت گر گئی۔ حد تو یہ ہے کہ اس عمارت کا ملبہ ساتھ والی عمارت کو بھی زمین بوس کر گیا۔ عمارت میں 40 کے قریب خاندان آباد تھے جن میں سے 30 خاندان نقل مکانی کر چکے تھے، بہت سے لوگوں نے اسی دن گھر چھوڑا تھا جس شام عمارت زمیں بوس ہوئی۔ لیاری کراچی کے ان گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گلیاں قدرے تنگ ہیں اور عام حالات میں ایک گاڑی ان گلیوں میں داخل نہیں ہو سکتی تو ایسے ماحول میں امدادی کارروائی قدرے مشکل عمل ہوجاتی ہے-ایسی گنجان آبادی میں حادثے کی صورت میں اس جگہ تک رسائی مشکل ہوتی ہے اور اور تنگ راستے ہونے کی وجہ سے ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کا پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے اور امدادی کاروائیوں میں مشکلات پیش آ تی ہیں۔
مایوس کن طور پر اس طرح کے واقعات بلا روک ٹوک جاری ہیں اور جان و مال کا نقصان عام سی بات ہو گئی ہے۔ ان سانحات میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک یکساں وجہ ناقص تعمیرات کے سبب انسانی رہائش کے لئے نا مناسب ان گنت تعمیراتی ڈھانچے ہیں ہیں۔آج تک شہر کراچی میں زمیں بوس ہونے والی عمارات کی صحیح تعداد اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے حتمی اعداد وشمار کہیں دستیاب نہیں ۔
لیاری میں ہونے والے اس سانحے کے فورا بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے کراچی میں 422 عمارتوں کو رہنے کے لحاظ سے خطرناک قرار دیا ہے ان میں سے 273 خستہ حال عمارتیں صرف صدر ٹاؤن میں ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق ، لیاری ٹاؤن میں 49 ، لیاقت آباد ٹاؤن میں 46 ، گلبرگ ٹاؤن میں 10 ، جمشید ٹاؤن میں 9 ، گلشن ٹاؤن میں 8 ، ملیر ٹاؤن میں 6 ، کیماڑی اور نارتھ ناظم آباد ٹاؤن میں 4 ، بلدیہ اور شاہ فیصل ٹاؤن میں 3 خطرناک عمارتیں ہیں۔ واضح رہے کہ تمام اعدادو شمار ایک دہائی پرانے انتظامی ڈویژن " ٹاؤن سسٹم " کے تحت ہیں جبکہ 2011 میں ٹاؤن سسٹم کو ختم کردیا گیا تھا اورآج کراچی انتظامی اعتبار سے 6 ضلعوں پر مشتمل ہے مگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آج بھی اسی فرسودہ انتظامی حدود سے جڑی نظر آتی ہے جو ادارہ پچھلے 9 سال میں انتظامی حدود کے اعتبار سے جدت اختیار نہیں کرسکا اسکے لئے کراچی جیسے شہر کی تعمیرات کا انتظام سنبھالنا ناممکن ہے ۔
مخدوش اور خستہ حال عمارتوں کے حوالے سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان عمارتوں کے مالکان کو انخلا کے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ لیکن رہائش کے متبادل متبادل مقامات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ انہیں خالی نہیں کرتے جبکہ زمینی حقائق کہ دیکھا جائے تو صورتحال یہ نظر آتی ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام اپنی ویب سائیٹ پر خطرناک قرار دی جانے والی عمارات کی فہرست کو اپ ڈیٹ تک نہ کرسکے ہیں انکی ویب سائیٹ پر موجود فہرست 2015 تک کے مطابق ہے اور خطرناک عمارات کی تعداد 288 نظر آتی ہے-حقیقت یہ ہے کہ کسی کو بھی شہر کراچی اور اس سے باہر کسی اور جگہ پر اسی طرح کی رہائش گاہوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایک ایسا نقشہ بنانے میں ناکام نظر آتی ہے جس میں شہر کراچی کی تمام مخدوش اور خطرناک قرار دی جانے والی عمارات کی نشاندہی کی گئی ہو-
انجینئرنگ کے مناسب نمونے ، پائیدار تعمیرات اور بہتر نگرانی کے تحت وجود میں آنے والی عمارتیں مختلف آفات کا سامنا کرنے کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہیں لیکن ایسی محفوظ عمارتوں کا وجود انتہائی محدود ہے۔ جبکہ عمارتوں کی تعمیر میں غیر رسمی طریقے زیادہ عام ہیں جن میں تکنیکی عنصر بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور اس طرح کے عمارتی ڈھانچے موت کا جال بن جاتے ہیں۔ نامناسب تعمیرات کے بڑے اسباب میں کسی عمارت میں بنیادوں کا نہ ہونا اور ناقص تعمیراتی مواد کا استعمال ہے جبکہ ہوا داری اور ہنگامی اخراج کی عدم موجودگی اور ناقص برقی کام کے سبب اکثر عمارتیں استعمال کے قابل نہیں رہتیں ۔
موجودہ صورتحال میں غیر محفوظ اور خطرناک عمارتوںکی جانچ پڑتال کرنے اور اس سے حاصل شدو نتائج کی روشنی میں عمارتوں کی مرمت اور رہائش پزیر خاندانوں کا ا انخلاء شروع کرنے کے لئے حکام کی طرف سے فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ شفافیت اور عملی کارکردگی کو وجود میں لانے کےلئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی جبکہ دوسری جانب سیمنٹ ، ریت ، اسٹیل ، اینٹوں جیسے تعمیراتی سامان کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان پے درپے واقعات کے بعد کراچی میں تعمیراتی ضوابط کے عملا اور بلا تخصیص نفاذ کے ساتھ ساتھ تعمیراتی بے قاعدگیوں میں ملوث اداروں کا کڑا احتساب ناگزیر ہے۔