زرد صحافت کا پہلا اصول ہے کہ جھوٹ کو اس بڑے پیمانے پر پھیلا دیا جائے کہ وہ سچ لگنے لگ جائے، بدقسمتی سے بھارت اور پاکستان میں برقی ذرائع ابلاغ کے آنے کے بعد یہ کام کچھ زیادہ ہی تواتر سے ہونے لگا ہے۔
اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بارے میں اس قدر جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ وہ سچ لگنے لگ پڑا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ سشانت سنگھ راجپوت نے خود کشی اس لیے کی کہ ان کو کام نہیں مل رہا تھا۔ ان کو جاب لیس کرانے میں اداکار سلمان خان اور ٹاپ فلم میکر کرن جوہر کا ہاتھ ہے۔ چونکہ سشانت سنگھ راجپوت سٹار کڈ نہیں تھے، ان کا تعلق ممبی سے بہت دور ایک پسماندہ ریاست بہار سے تھا، اس لیے ان کو جاب لیس ایک سازش کے تحت کیا گیا۔
افسوس کہ سب جھوٹ ہے سشانت سنگھ بالکل جاب لیس نہیں تھے۔ ان کی پچھلی دو فلمیں کیدارناتھ ہٹ اور چھچھورے سپر ہٹ ہوئی تھیں۔ سشانت سنگھ راجپوت سٹار ڈم کی طرف قدم بڑھا رہے تھے، ان کو بے تحاشا فلموں کی آفر ہو رہی تھی۔ وہ فلموں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ سشانت سنگھ راجپوت نے تین فلموں کا انتخاب کیا، جس میں بالی وڈ کے بہت بڑے فلم میکر ساجد نڈواٹالا کی فلم تھی، جس کے ڈائریکٹر رومی جعفری تھے۔ دوسری فلم آسکر ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹر رسول بالو کی فلم جو ملیالم زبان میں بن چکی ہے۔ اب اس کو ہندی زبان میں بنایا جا رہا ہے، تیسری فلم سنجے سورن سنگھ کی تھی۔
لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد ان تینوں فلموں کی عکس بندی شروع ہونے والی تھی، اگر سشانت سنگھ راجپوت کا موازنہ اپنے ہم عصر سٹار کڈز کے ساتھ کیا جائے، جن میں ٹائیگر شروف اور ورن دھون شامل ہیں تو ان دونوں میں کوئی بھی ایسا نہیں، جس نے تمام ٹاپ فلم میکرز جن میں ادیتیہ چوپڑہ، کرن جوہر، راج کمار ہیرانی اور نتیش تیواری کے ساتھ کام کیا ہو۔ صرف سشانت سنگھ راجپوت واحد نان فلمی بیک گراؤنڈ کا حامل ادکار ہے، جس نے ان ٹاپ کے فلم میکرز کے ساتھ کام کیا ہے۔
سلمان جیسے سپر سٹار ایکٹر کو اگر کسی سے چوکنا ہونے کی ضرورت ہے تو وہ اکشے کمار، اجے دیوگن، رن ویر سنگھ اور رنبیر کپور ہیں۔ سشانت سنگھ راجپوت نہیں۔ اور کرن جوہر تو خود ان کو اپنی فلم میں چانس دے چکے ہیں۔
اب ان کی خودکشی کی طرف آتے ہیں، سشانت سنگھ راجپوت چھوٹی عمر سے ہی ڈپریشن کے مریض تھے، ان کو کلینیکل ڈپریشن تھا اس کا علاج بھی چل رہا تھا۔ جس کے لیے ان کو بڑی مقدار میں روزانہ میڈیسن کھانی پڑتی تھیں۔ سشانت سنگھ راجپوت کا افئیر رہیا چکرورتی سے بھی چل رہا تھا، جو ماڈل ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے ٹوٹ کر پیار کرتے تھے، بالکل ایسے ہی جیسے فلموں کی لو سٹوری ہوتی ہے۔
رہیا بہت کوشش کر رہی تھیں کہ سشانت سنگھ راجپوت ٹھیک ہو جائے، اس نے سشانت سنگھ راجپوت کے فلیٹ میں رہنا شروع کر دیا تھا، بڑی مقدار میں میڈیسن دن میں تین دفعہ کھلانے کی ذمہ داری رہیا چکرورتی نے سنبھالی لی تھی۔ مگر مرض بڑھتا گیا، سشانت سنگھ کا علاج کراتے کراتے رہیا خود نفسیاتی مسئلے کا شکار ہو گئیں۔ جب اس کو پہلا دورہ پڑا تو سشانت سنگھ راجپوت نے رہیا سے کہا تم مجھے اکیلے چھوڑ دو میرے فلیٹ سے چلی جاؤ، تم خود ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو جاؤ گی، مگر رہیا نے انکار کر دیا۔ درحقیقت دونوں رہیا اور سشانت سنگھ راجپوت عشق کی انتہا پر تھے۔
سشانت نے خود رہیا کا سامان پیک کیا اور اس کے گھر چھوڑ آیا۔ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے رہیا کی تمام تصاویر ہٹا دیں اور خودکشی کر لی۔
رہیا نے اپنے محبوب کی لاش کا آخری دیدار ہستپال میں کیا کیونکہ لاک ڈاؤن کے باعث صرف 25 افراد کو سشانت سنگھ راجپوت کے کریا کرم کی اجازت تھی، جس میں رہیا چکرورتی کا نام نہیں تھا۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔