شمالی وزیرستان میں قتل کئے گئے چاروں نوجوان کون تھے؟

شمالی وزیرستان میں قتل کئے گئے چاروں نوجوان کون تھے؟
خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں یوتھ آف وزیرستان نامی تنظیم سے وابستہ چار نوجوانوں کو نامعلوم افراد نے اتوار کے روز قتل کیا۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ شمالی وزیرستان کے تحصیل میر علی حیدر خیل نامی گاؤں میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق چاروں عہدیدار وقار احمد داوڑ، سنید احمد داوڑ، عماد داوڑ اور اسد اللہ کو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کیا۔

پولیس کے ایک افسر نے نیا دور میڈیا کو تصدیق کی کہ چاروں دوست ایک دوست کی دعوت پر ان کے ہاں کھانا کھانے گئے تھے، اور واپسی پر نامعلوم افراد نے چاروں کو فائرنگ کرکے قتل کیا۔ پولیس کے مطابق اس واقعے کے بعد پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لیا اور پولیس قاتلوں کو پکڑنے کے لئے کوششیں کررہی ہے۔

ایک عینی شاہد کے مطابق چاروں نوجوان گاڑی میں واپس آرہے تھے کہ موٹر سائیکل سواروں نے ان کا راستہ روکا اور دو کلاشنکوف رائفلز سے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔

ابھی تک کسی کالعدم تنظیم کی جانب سے اس واقعے کی زمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

قتل کئے گئے چاروں نوجوان کون تھے؟

نیا دور میڈیا نے اتوار کے روز ٹارگٹ کلنگ میں جاں بحق ہونے والے چاروں دوستوں کے حوالے سے ان کے دوستوں اور قریبی عزیزوں سے معلومات اکھٹے کی ہے۔

سنید داوڑ

سنید داوڑ نے پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی اور یونیورسٹی میں طلبہ سیاست میں تاحال سرگرم تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کونسل کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے۔ ان کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا اور وہ پشتون تحفظ موومنٹ، یوتھ آف وزیرستان سے بھی وابستہ رہ چکے تھے مگر اس وقت وہ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رکن تھے۔ وہ لاہور کی طلبہ تحریکوں میں سرگرم ہونے کے ساتھ شمالی وزیرستان میں دہشتگردی کے خلاف ایک موثر آواز تھے۔

اسد اللہ

اسد اللہ کا تعلق دور طالبعلمی میں اسلامی جمیعت طلبہ سے تھا اور بعد میں انھوں نے شمالی وزیرستان سے پہلا صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا مگر الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی تھی اور فاٹا اصلاحات اور ایف سی آر کے خلاف سیاسی جلسوں میں پیش پیش رہے۔ وہ یوتھ آف وزیرستان نامی تنظیم کے صدر بھی رہ چکے تھے۔ شمالی وزیرستان میں امن وامان، آئی ڈی پیز کے مسائل کے لئے کافی متحرک تھے۔ وہ اس وقت محکمہ صحت میں ملازم تھے۔ اسد جماعت اسلامی کے فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعے یتیموں، بیواؤں اور دیگر مستحق افراد کو مالی معاونت فراہم کرنے سمیت دیگر فلاحی کاموں میں بھی  پیش پیش رہے۔

وقار داوڑ

وقار داؤڑ کا تعلق بھی شمالی وزیرستان سے تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ معلم تھے اور ایک مقامی سکول میں درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ انھوں نے کچھ سال پہلے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی اور شمالی وزیرستان میں دہشتگردی کے کسی بھی واقعہ کے بعد وہ احتجاجی مظاہروں کے لئے لوگوں کو متحرک کرتے تھے۔ وہ یوتھ آف وزیرستان کے صدر بھی رہ چکے تھے اور وزیرستان میں امن کے لئے ایک موثر آواز تھے۔

عماد داوڑ

عماد داوڑ بھی یوتھ آف وزیرستان نامی تنظیم کے ممبر تھے اور اس وقت وہ ریسکیو سروس میں سرکاری ملازم تھے۔ وہ علاقے کے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ وہ سیاسی طور پر بھی کافی متحرک تھے۔ ان کا زیادہ تر کام ہسپتالوں مین مریضوں کو خون فراہم کرنا ہوتا تھا۔

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ سے وابستہ سیاسی کارکن عبداللہ ننگیال نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ان چاروں کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی اور یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وزیرستان میں یوتھ آف وزیرستان نامی تنظیم کے چھ کارکنوں کو اب تک قتل کیا جا چکا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا سے وابستہ صحافی عدنان بیٹنی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے اور وزیرستان میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے چار موثر آوازوں کو خاموش کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد کچھ وقت تک ان واقعات میں کمی آئی تھی مگر اب یہ روز کا معمول بن چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں پہلے امن کمیٹیوں کے ممبران اور قبائلی علاقوں کے عمائدین کو ٹارگٹ کیا جاتا تھا مگر اب سیاسی کارکن اور وہ نوجوان ان کے نشانے پر ہیں جو علاقے میں عسکریت پسندوں کے واپسی میں رکاوٹ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے ضرب عضب کے بعد دہشتگردی کو جڑ سے ختم کرنے کے جو دعوے کئے گئے تھے ان پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور اب علاقے میں سیکیورٹی فورسز، سیاسی کارکنوں اور قبائلی عمائدین پر مسلسل حملے اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں پر عسکریت پسند تنظیمیں موثر، مضبوط اور فعال ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔