صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دے دی۔
وزارت قانون نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ان کی تعیناتی کا اطلاق 17 ستمبر 2023 سے ہوگا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال آئین کے آرٹیکل 179 کے تحت 16ستمبر کو ریٹائر ہوں گے تاہم صدرمملکت نے موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 2 ماہ پہلے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننےکی منظوری دے دی۔
صدر نے چیف جسٹس کی تعیناتی آرٹیکل 175اے 3 کے تحت کی۔ صدر مملکت، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے 17 ستمبر 2023 کو عہدے کا حلف لیں گے۔
https://twitter.com/PresOfPakistan/status/1671455170130227200?s=20
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور پھر مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے۔
3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا۔
بعد ازاں 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے، وہ اس دوران بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تاحیات رکن رہے۔
علاوہ ازیں انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں معاونت کے لیے بھی طلب کیا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے۔
جسٹس عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ وہ 2 فروری 2022 کو جسٹس عمر عطا بندیال کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر جج بن گئے۔
جسٹس عیسیٰ 2019 میں اثاثے چھپانے پر ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیے جانے اور ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کے بعد متنازعہ بن گئے۔ سپریم کورٹ نے ٹیکس حکام کو ہدایت کی کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ کے خلاف تین غیر ملکی جائیدادوں کا اعلان نہ کرنے کے الزامات کی تحقیقات کریں اور اپنے نتائج سپریم جوڈیشل کونسل (جے ڈی سی) کو پیش کریں۔
30 مارچ کو وفاقی حکومت نے کیوریٹو ریویو واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور درخواست دائر کی تھی۔
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کمزور اور بے بنیاد وجوہات پر یہ ریفرنس دائر ہوا تھا۔حکومت اس ریفرنس کی پیروی نہیں کرے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ریفرنس کے نام پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں اور بدنام کیاگیا۔یہ ریفرنس نہیں تھا. آئین اور قانون کی راہ پر چلنے والے ایک منصف مزاج جج کے خلاف ایک منتقم مزاج شخص عمران نیازی کی انتقامی کارروائی تھی۔ یہ عدلیہ کی آزادی پر شب خون اور اسے تقسیم کرنے کی مذموم سازش تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ عمران نیازی نے صدر کے آئینی منصب کا اس مجرمانہ فعل کے لئے ناجائز استعمال کیا۔ صدر عدلیہ پر حملے کے جرم میں آلہ کار اور جھوٹ کے حصہ دار بنے۔
23 مئی 2019 کو پی ٹی آئی کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے جسٹس عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف اپنے خاندان کے غیر ملکی اثاثے ظاہر نہ کرنے پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) سے رجوع کیا تھا۔
تاہم، جون 2020 میں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے 6-4 کی اکثریت کے ساتھ جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس اور اس ریفرنس کی بنیاد پر شروع ہونے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ بینچ کے اکثریتی اراکین نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثوں کی چھان بین کے لیے ایف بی آر کو حکم دے دیا۔
اس فیصلے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کر دی اور سپریم کورٹ نے جائیداد کی چھان بین کا اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے ایف بی آر کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔
اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اعتراف کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنا ہماری حکومت کی غلطی تھی۔