پولیس کا کام لوگوں کو جرائم پیشہ افراد سے بچانا ہوتا ہے لیکن اگر پولیس والے خود ہی جرائم پیشہ ہوں تو عوام کہاں جائے؟
حال ہی میں ایک موبائل ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چار پولیس اہلکار کراچی سی ویو پر ایک جوڑے کو ہراساں کرتے دیکھے جا سکتے ہیں -پولیس اہلکاروں نے جوڑے پر بندوقیں تان رکھی ہیں اور ان سے رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں-
ان اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا یہ چاروں پولیس اہلکار ایک دوسرے سے مل کر جوڑوں سے ایسے ہی رقم کا مطالبہ کرتے تھے-
اس معاملے کو دیکھنے والے ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ چند گندے انڈے پوری پولیس فورس کو بدنام کرتے ہیں- گذشتہ اکتوبر میں کراچی پولیس کے سربراہ نے ایک اہم اعلان کیا:پولیس والے جوڑوں سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ کیا وہ شادی شدہ ہیں-
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اس معاملے میں ہراساں کیا جانا برداشت نہیں کیا جائے گا پولیس چیف کے سٹاف کو واضح ہدایات دی گئیں کہ وہ ایک نوٹیفکیشن جاری کریں-
جس میں ماتحت افسران کو اس حوالے سے واشگاف ہدایات دے دی جائیں صاف ظاہر ہے کہ کہیں نہ کہیں اس حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ اسے برداشت کیوں کیا گیا؟
ظاہر ہے کہ لوگ اپنے نکاح نامے ساتھ لے کر نہیں گھومتے لیکن پولیس کی جانب سے لوگوں کی اخلاقی پولیسنگ جاری رہی اور دوسرے شہر کراچی کی پیروی کیوں نہیں کر رہے؟
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو محض متمول گھرانوں کے جوڑے ہی پولیس کی ہراسانی کے خلاف شکایت لے کر پولیس کے پاس جاتے ہیں-
لیکن اب سوشل میڈیا اور موبائل کیمرے یہ روایت تبدیل کر رہے ہیں اور اس طرح کے پولیس والوں کو سرعام شرمندہ کرنا آسان ہو گیا ہے-
کیا آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا اور موبائل کیمرے وہ کر پائیں گے جو پولیس چیف نہیں کر سکے؟