سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف درخواست کی سماعت میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان سپریم کورٹ پہنچے۔
عدالت پہنچنے والوں میں اہم رہنماؤں میں مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن، بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی (بی این پی) کے اختر مینگل شامل تھے۔
دورانِ سماعت وکیل (ایس بی سی اے) منصور اعوان نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ حکم میں کہا تھا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کے علاوہ کوئی واقعہ نہیں ہوا، اسپیکر قومی اسمبلی نے 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا ہے، آئین کی دفعہ 95 کے تحت 14 روز میں اسمبلی کا اجلاس بلانا لازم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو، ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔
وکیل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ رولز کے مطابق 25 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی، تحریک عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا، رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کریں گے، سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نقاط اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔
دریں اثنا پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن پر آئین کا آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کروا لیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، اس آرٹیکل کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جس کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حثیت نہیں، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس بی سی اے) نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان متوقع تصادم کو روکنے کے لیے 17 مارچ کو عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواست دائر کی تھی۔
بعدازاں 19 مارچ کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے حکمراں جماعت پی ٹی آئی سمیت مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) بی این پی مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کو ان کے سیکریٹری جنرلز کے ذریعے نوٹسز جاری کیے تھے۔
عدالت نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے علاوہ 6 سیاسی جماعتوں سے معاونت طلب کی تھی اور اسلام آباد پولیس کو سندھ ہاؤس پر پی ٹی آئی کارکنا کے دھاوے سے متعلق جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایس بی سی اے نے کیس میں وفاق، وزیراعظم عمران خان، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر، اسپیکر قومی اسمبلی، سیکریٹری قومی اسمبلی، آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا تھا۔
مذکورہ درخواست تحریک عدم اعتماد اور اسلام آباد میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جلسوں کے اعلان کے پیش نظر دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کی گئی تھی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائے جانے کے بعد سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی سیاسی سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔
ایس بی سی اے کا کہنا تھا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور حکومت نے واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبران کی جانب سے (تحریک عدم اعتماد کے حق میں) ووٹ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے گی۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت تمام اسٹیلک ہولڈرز کو تحریک عدم اعتماد کا عمل پر امن انداز سے مکمل ہونے دینے کا حکم دیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ تمام ریاستی اداروں کو سختی سے آئین و قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت دی جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت کسی بھی نقصان دہ اور غیر ضروری طریقے سے کام کرنے سے روکا جائے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے 27 مارچ کو جلسے میں 10 لاکھ کا مجمع اکھٹا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسی روز ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے باعث صورت حال کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔