'سپریم کورٹ سیاسی الجھنوں میں نہ پڑے'، سپیکر قومی اسمبلی کا چیف جسٹس کو خط

'سپریم کورٹ سیاسی الجھنوں میں نہ پڑے'، سپیکر قومی اسمبلی کا چیف جسٹس کو خط
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھ دیا۔

سپیکر راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کے ارکان کی آراء اور جذبات کی روشنی میں ’پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت‘ کے عنوان سے 5 صفحات کا خط ارسال کیا ہے۔

راجا پرویزاشرف نے خط میں 3 رکنی بینچ کے احکامات کو تشویش اوربے چینی کا باعث قراردے دیا اورکہا ہے کہ 3 رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے اقدامات کو نظر انداز کیا۔

خط میں لکھا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 189 اور 190 کی رو سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد درکار نہیں۔ رقم دینے کی درخواست مسترد ہونے کا مطلب وزیراعظم اور حکومت پر قومی اسمبلی کا عدم اعتماد نہیں ہے۔

سپیکر نے لکھا کہ بینچ کی جانب سے اخراجات کی اجازت نہ دینے پر سنگین نتائج کی دھمکی قومی اسمبلی کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کو آئینی شقیں نظرانداز کرتے ہوئے فنڈز جاری کرنے کی ہدایات دینے کا اختیار نہیں۔عدالتوں کو آئین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن آئین کو دوبارہ لکھنا یا پارلیمنٹ کی خودمختاری کو مجروع کرنا عدالتی اختیار میں شامل نہیں۔انتخابی اخراجات کامعاملہ خزانہ کمیٹی نےایوان کوبھیجا۔3رکنی بینچ کاقومی اسمبلی کااستحقاق،آئینی عمل نظراندازکرناافسوسناک ہے۔

راجا پرویز اشرف کے خط کے مطابق باربارفنڈزجاری کرنےکےاحکامات غیرضروری محاذآرائی کاباعث بن رہےہیں۔حکومت کوانتخابی اخراجات کی غیرمعمولی ہدایات عجلت کی عکاس ہیں۔

سپیکر نے لکھا کہ پارلیمنٹ نےہمیشہ عدلیہ کی آزادی کااحترام کیا۔ کسی دوسرےکےاختیارمیں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ضروری ہےکہ ہرادارہ اپنی حدودمیں رہے۔

خط کے مطابق ہمیں آئین کو برقراررکھنے،جمہوری اقدار کے تحفظ کیلئے مل کر کام کرنا چاہیےاورآئینی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور اداروں میں تصادم سے بچنے کیلئے آئینی حدود کے اندر کام کرنا چاہیے۔

سپیکر کے خط میں چیف جسٹس اورججز سے انفرادی اور اجتماعی طور پر تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ عدالت پارلیمان کےقانون سازی کے دائرہ کار کا احترام کرے۔ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان انفرادی اور اجتماعی طور پر پارلیمنٹ کے دائرے میں مداخلت نہ کریں۔ آئین کی سربلندی، تحفظ ،دفاع اور جمہوری اقدار کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، دستوری تقسیم کے مطابق تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کو یقینی بنانا چاہیے۔ آئینی دائرے میں رہنے سے ہی ریاست کو اداروں کے درمیان تنازعات سے بچایا جاسکتا ہے۔ بہترہےسیاسی معاملات کاحل پارلیمان اورسیاسی جماعتوں پرچھوڑدیاجائے۔

خط کے مطابق عدلیہ نےبندوق انہی سیاستدانوں پرچلائی جنہوں نےمشکل میں اس کادفاع کیا۔عوام نےہمیشہ خون اورپسینےسےجمہوریت کی بحالی کیلئےجدوجہد کی۔سپریم کورٹ سیاسی جھگڑوں میں الجھنےسےگریزکرے۔