سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس بالکل غیر ضروری ہے۔ آئین کی اس شق کے بارے میں کورٹ کچھ نہیں بتا سکتی کیونکہ اس میں کوئی ابہام ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا صدر پاکستان یا سپیکر قومی اسمبلی یہ چیز طے نہیں کر سکتے۔ اگر قانون کو فالو کرنا ہے تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ 24 مارچ کو اس معاملے میں نہ جائے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپیکر کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کہیں کہ میں منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹ کائونٹ نہیں کروں گا کیونکہ آئین میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ اگر کسی چیز پر پابندی نہیں تو اس سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ تاہم سپیکر ایسا اقدام اٹھاتے ہیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو متحدہ اپوزیشن انھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالنے کا بندوبست کر سکتی ہے۔ کیونکہ اگر وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے نمبرز گیم پوری ہے تو سپیکر کیخلاف ببھی ضرور ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا یہ کہ چونکہ ان حالات میں سپیکر کا اقدام غیر آئینی ہوگا، اس لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پارلیمانی معاملات کو ایوان کے اندر ہی حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ تاہم ہمارے جیسے ممالک میں ایسے معاملات عدالتوں کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ لیکن اگر ملک آئین وقانون کے مطابق نہ چلایا جا رہا ہو، سپیکر بھی ایوان کی کارروائی آگے نہ بڑھائیں اور عدالتیں بھی متنازع ہو جائیں تو ایسے معاملات کے حوالے سے ایسے عدالتی فیصلوں کی نظیر ملتی ہے جن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جہاں اس طرح کی انارکی پھیل جائے تو پھر سب سے زیادہ منظم قوت ریاست کو بچانے کیلئے نظم ونسق سنبھال لے گی تاکہ ملک کو دوبارہ جمہوریت کی جانب گامزن کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی جمہوری ریاست میں اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ یہ سٹیج بھی آ جائے کہ کوئی سپیکر کے عہدے پر بیٹھ کر آئین کی پامالی کرنا شروع کردے۔ یا ججز اور چیف جسٹس اپنی حدود سے آگے چلے جائیں۔ اس سے ناصرف ریاست بلکہ جمہوری عنصر کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ اگر ہماری عدالتیں ماضی کی طرح متنازع فیصلے دیں تو پھر ایسے معاملات تعطیل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
پروگرام کے دوران شریک گفتگو عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے جو صدارتی ریفرنس ہے اس میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ چیلنج ووٹ تصور کیا جائے، جو کہ گنتی کے اندر شمار نہ ہو سکے جب تک کہ نااہلی کے ریفرنس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ دوسری چیز اس میں یہ کہی جا رہی ہے کہ اس میں ڈس کوالیفیکیشن ہے، وہ آرٹیکل 62 ون ایف کے اندر درج قانون کے تحت ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب اپنی پارٹی کے برخلاف جانے والوں کو تاحیات نااہل کیا جائے تاکہ جمہوریت کے اندر ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ آج سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ سپیکر کا اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی بھی منحرف رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روک سکے۔ وہ ووٹ ڈالنے بھی جا سکتا ہے اور وہ گنتی میں بھی شمار ہوگا۔