پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی کرداروں میں سے ایک ملک غلام محمد ہیں جو ملک کے تیسرے گورنر جنرل بنے۔ ملک غلام محمد بلند فشار خون کے عارضے میں مبتلا تھے۔ اپنی حکمرانی کے دور میں انہیں فالج ہو گیا تھا اور لقوے کی وجہ سے ان کی قوت گویائی بھی شدید متاثر تھی۔ گورنر جنرل ہوتے ہوئے بھی ان کا یہ حال تھا کہ جو بات کہتے تھے وہ بیش تر لوگوں کی سمجھ ہی میں نہیں آتی تھی۔ قدرت اللہ شہاب اپنی خودنوشت ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ گورنر جنرل غلام محمد جب بولتے تھے تو ان کے منہ سے رالیں گرنے لگتی تھیں اور ان کا غوغیانہ صرف ان کی سیکرٹری مس بورل ہی کی سمجھ میں آتا تھا۔ مس بورل پاکستان کے گورنر جنرل کی غوں غاں کو لفظوں میں ڈھالتی تھیں۔ گورنر جنرل کے لیے زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا بھی ممکن نہیں تھا۔ وہ اپنی اکثر ذمے داریاں بستر پر لیٹے لیٹے ادا کرتے تھے۔ مگر وہ اپنا ایسا تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے تھے جس کی وجہ سے کوئی انہیں ان کے عہدے سے ہٹانے یا ان کے اختیارات پر اعتراض اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔
گورنر جنرل غلام محمد اپنی سیکرٹری مس بورل اور قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ
بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دور میں فوج پس پردہ رہ کر ملکی سیاست پر قابض ہونے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی اور جب تک غلام محمد ملک کے گورنر جنرل رہے فوج ان کے شانہ بشانہ رہی۔ فوج کی اسی آشیرباد نے غلام محمد کو وہ طاقت اور بے باکی عطا کی کہ دو مرتبہ انہوں نے قانون ساز اسمبلی توڑی اور دو وزائے اعظموں کو فارغ کیا۔ اسی ڈرامائی کردار نے فوج کو باقاعدہ طور پر سیاست کے ایوانوں میں خوش آمدید کہا اور عدلیہ کو اپنی مرضی کا فیصلہ سنانے پر مجبور کیا۔ ملک غلام محمد سے بڑا ڈرامائی کردار پاکستان کی تاریخ میں دوسرا نہیں آیا۔
ملک غلام محمد کون تھے؟
قائد اعطم محمد علی جناح اور صاحبزادہ لیاقت علی خان
ملک غلام محمد 1895 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کر کے وہ انڈین سول سروس میں شامل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران وہ متحدہ ہندوستان کے وار سپلائیز ڈیپارٹمنٹ میں تعینات تھے۔ اگرچہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا مگر تحریک پاکستان کے دوران وہ مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسیوں کے حامی تھے۔ پاکستان کے قیام کے وقت قائد اعظم نے انہیں پاکستان کا وزیر خزانہ بننے کی پیش کش کی جو انہوں نے تین ہزار ماہوار تنخواہ کے عوض قبول کر لی۔ پاکستان کا پہلا بجٹ انہوں نے ہی پیش کیا۔ یہ ایک شان دار بجٹ تھا جس کی وجہ سے ملک کے معاشی حالات قدرے بہتر ہوئے۔ اس بجٹ کے بعد قائد اعظم کو اپنے حسن انتخاب پر فخر محسوس ہوا۔ قائد اعظم کے جیتے جی پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں اقتدار کی بندر بانٹ شروع نہیں ہوئی تھی۔ ستمبر 1948 میں قائداعظم کی وفات کے بعد ایک بھگدڑ سی مچ گئی جو آج تک جاری ہے۔
ملک غلام محمد محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ
گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے اختیارات میں فرق
قائداعظم کی وفات کے بعد مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے پرانے رہنما خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل بنے۔ اگرچہ 1935 کے انڈیا ایکٹ میں گورنر جنرل کو وسیع اختیارات حاصل تھے۔ وہ براہ راست تاج برطانیہ کے نمائندے کے طور پر فرائض سرانجام دیتا تھا۔ 1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو فوری طور پر 1935 کے اسی انڈیا ایکٹ میں مناسب ترامیم کر کے اسے نافذالعمل کر دیا گیا۔ ان ترامیم کے ذریعے گورنر جنرل کے صوابدیدی اختیارات کم کر دیے گئے اور انہیں مرکزی کابینہ سے مشاورت کا پابند بنا دیا گیا۔ قائد اعظم ملک میں پارلیمانی جمہوریت قائم کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے انہوں نے وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور قانون ساز اسمبلی کو گورنر جنرل کے اختیارات پر مقدم رکھا۔ قائداعظم جب تک زندہ رہے بطور گورنر جنرل انہیں وسیع اختیارات حاصل رہے۔ وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور قانون ساز اسمبلی قائد اعظم کی رائے کو حتمی قرار دیتے تھے اور کبھی باہمی ٹکراؤ کی صورت حال سامنے نہیں آئی تھی۔ مگر جب خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے تو وزیراعظم زیادہ بااختیار ہو گئے۔ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان ایک جلسے کے دوران راولپنڈی کے کمپنی باغ (موجودہ لیاقت باغ) میں ایک حملہ آور کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ ان کے جاں بحق ہونے کے بعد خواجہ ناظم الدین ملک کے دوسرے وزیراعظم بن گئے اور انہوں نے وزیر خزانہ ملک غلام محمد کو ملک کا تیسرا گورنر جنرل نامزد کر دیا۔
گورنر جنرل غلام محمد ایک شادی کی تقریب میں
فالج زدہ شخص ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا
ملک غلام محمد ان دنوں خاصے بیمار رہتے تھے۔ انہیں بلند فشار خون کا عارضہ لاحق تھا۔ اس کے علاوہ فالج اور لقوے کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں پاتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب جو نو سال تک گورنر جنرل کے سیکرٹری رہے، اپنی خود نوشت ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ملک غلام محمد اس حالت میں نہیں تھے کہ انہیں اتنی اہم ذمہ داری سونپی جاتی مگر ان کو عجلت میں بستر سے اٹھا کر گورنر جنرل کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ ’’ایوان صدر میں سولہ سال‘‘ کے مصنف م۔ب۔خالد اور قدرت اللہ شہاب اس بات پر متفق ہیں کہ خواجہ ناظم الدین نے ملک غلام محمد کو اس حالت میں گورنر جنرل کے عہدے کے لیے اس لیے نامزد کیا تھا کیونکہ خواجہ صاحب کا خیال تھا کہ ملک غلام محمد ملکی معاملات میں زیادہ مداخلت نہیں کر سکیں گے اور یوں قانون ساز اسمبلی بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام جاری رکھے گی۔ مگر یہ خواجہ ناظم الدین کی بہت بڑی غلط فہمی ثابت ہوئی۔ گورنر جنرل کے طور پر ملک غلام محمد نے ایسے اقدامات کیے جن کا آئین، قوانین، ضابطوں اور اصولوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے ہر کام میں اپنی من مانی کی اور کبھی کسی ضابطے کو خاطر میں نہیں لائے۔
گورنر جنرل غلام محمد ایک سرکاری تقریب میں شرکت کے لئے آ رہے ہیں
طاقت کا نشہ ملک غلام محمد کی سب سے بڑی کمزوری تھی
اپنی ملازمت ہی کے زمانے سے ملک غلام محمد کی شہرت یہ تھی کہ وہ ضابطے اور میرٹ کو نظرانداز کرنے والے شخص ہیں۔ ’’کہانی ایک قوم کی‘‘ میں اکبر ملک لکھتے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے اترپردیش میں وہ محکمہ ریلوے میں اکاؤنٹ آفیسر تھے۔ ٹکٹ چیکنگ سٹاف کی بھرتی کے دوران آسامیوں کی نسبت بہت زیادہ امیدوار انٹرویو کے لیے جمع ہو گئے۔ ملک غلام محمد نے تمام امیدواروں کو ایک قطار میں کھڑا کیا اور اعلان کیا کہ غیرمسلم امیدوار چلے جائیں، بھرتیاں مکمل ہو گئی ہیں۔ اس بے ضابطگی پر خوب واویلا مچا اور ہندو پریس میں کئی مضمون اور اداریے چھپے مگر جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ بعد میں جب وہ گورنر جنرل بنے تو وہاں بھی اپنی من مانی کو معیار بنایا اور اصول و ضابطے کی زیادہ پروا نہیں کی۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ گورنر جنرل غلام محمد کی سب سے بڑی کمزوری طاقت کا نشہ ہی تھی۔ وہ کبھی بھی سیاست دان نہیں رہے تھے اور بیوروکریٹ کے طور پرماضی میں انہیں جو اختیارات حاصل رہے وہ ان کی فطرت کا حصہ بن گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ گورنر جنرل بنے تو خواجہ ناظم الدین کی سوچ کے برعکس انہوں نے وسیع اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور کاروبار حکومت میں مداخلت شروع کر دی۔
میجر جنرل سکندر مرزا چینی قیادت کے ہمراہ
وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین اور پوری کابینہ کو گھر بھیج دیا
1953 کے اوائل میں خواجہ ناظم الدین کو محسوس ہوا کہ گورنر جنرل غلام محمد، مشتاق احمد گورمانی، چودھری محمد علی اور میجر جنرل سکندر مرزا وزیراعظم کو بتائے بغیر اہم فیصلے خود ہی کر رہے ہیں۔ اس مسئلے پر انہوں نے اپریل 1953 کے وسط میں اپنی کابینہ کے چند قابل اعتبار ارکان سے مشاورت کی اور یہ طے پایا کہ تاج برطانیہ سے گورنر جنرل غلام محمد کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جائے۔ اس مشاورت میں وزیر خزانہ چودھری محمد علی بھی شریک تھے اور انہوں نے یہ بات گورنر جنرل غلام محمد کو بتا دی۔ غلام محمد یہ بات سن کر آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے 17 اپریل 1953 کی شام کو خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کو گورنر جنرل ہاؤس میں بلا کر انہیں فوری طور پر مستعفی ہو جانے کا حکم دے دیا۔ مگر جب ظفر اللہ خان کے علاوہ کابینہ کے تمام اراکین اور خواجہ ناظم الدین استعفے دینے کے لیے رضامند نہ ہوئے تو گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کو یک جُنبشِ قلم برطرف کر دیا۔ خواجہ ناظم الدین پر قانون ساز اسمبلی نے ابھی دو ہی ہفتے قبل اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تھا جب اسمبلی نے خواجہ ناظم الدین کی کابینہ کا تیار کردہ بجٹ بھاری اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس کے باوجود گورنر جنرل نے بغیر کوئی قانونی جواز پیش کیے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو آن کی آن میں رخصت کر دیا۔ پاکستان میں یہ وہ اولین سیاہ دن تھا جب پہلی مرتبہ عوامی نمائندے اس قدر بے توقیری کا شکار ہوئے۔
گورنر جنرل غلام محمد کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کے ہمراہ
حاضر سروس آرمی چیف ملک کا وزیر دفاع بنا
یہ وہ وقت تھا جب گورنر جنرل غلام محمد کو فوج کی بھی حمایت حاصل تھی۔ پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان ان کے ساتھ تھے اور انہوں نے حکومت کو رخصت کرنے کا فیصلہ ایوب خان کی معاونت ہی سے کیا تھا۔ اس بات کا ثبوت آگے چل کر ایک اور دلچسپ منظرنامے کی صورت میں ملا جب راتوں رات امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو واپس بلا کر پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا گیا اور جنرل ایوب خان نے وزیر دفاع کے طور پر حلف اٹھایا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ملکی فوج کا سربراہ فوجی وردی میں کابینہ کے اجلاس میں بطور وزیر دفاع شامل ہوا۔ اگرچہ پاکستانی فوج ملکی سیاسی معاملات میں شروع ہی سے دخیل تھی اور مزید اختیارات اور طاقت ہتھیانے کے لیے سرگرم تھی مگر جب پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان وزیر دفاع بن کر کابینہ میں شامل ہو گئے تو پہلی مرتبہ فوج باضابطہ طور پر سیاسی طاقت کی شراکت دار بن گئی۔ 1954 میں میجر جنرل سکندر مرزا کو مشرقی بنگال کا گورنر بنایا گیا اور 1956 میں وہ ملک کے پہلے صدر بن گئے۔ جنرل ایوب خان نے 1958 میں ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا۔ یوں ملک غلام محمد نے پاکستانی فوج کو سیاسی عمل داری میں نقب لگانے کا ایسا راستہ دکھایا کہ مختصر سے عرصے میں فوج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی۔
جنرل ایوب خان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہمراہ
' نظریہ ضرورت' کے اہم کردار
گورنر جنرل غلام محمد نے ہی پہلی مرتبہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملک کے عدالتی نظام کو اپنے اقتدار کے دوام کے لیے استعمال کیا۔ عدلیہ نے نظریہء ضرورت کو ملک غلام محمد ہی کے زمانے میں متعارف کروایا۔ خواجہ ناظم الدین کی رخصت کے بعد محمد علی بوگرہ ملک کے تیسرے وزیراعظم بنائے گئے۔ کچھ عرصے تک وہ گورنر جنرل کی دھونس برداشت کرتے رہے مگر پھر انہوں نے بھی گورنر جنرل کے اثر سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ملک غلام محمد سیروتفریح کے لیے جب دارالحکومت کراچی سے دور ایبٹ آباد گئے ہوئے تھے تو وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے قانون ساز اسمبلی کے صدر (موجودہ سپیکر) مولوی تمیزالدین سے مشاورت کے بعد راتوں رات اسمبلی سے ایک بل منظور کروا لیا جس میں گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے اور کابینہ کو رخصت کرنے کے اختیارات ختم کر دیے گئے۔ یہ بل پاس کروانے کے بعد وزیر اعظم محمد علی بوگرہ جنرل ایوب خان، سکندر مرزا اور ابوالحسن اصفہانی کی معیت میں امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ گورنر جنرل جب سیروتفریح سے واپس آئے تو انہیں صورت حال کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے چودھری محمد علی، مشتاق احمد گورمانی اور سکندر مرزا کو اپنے ساتھ ملایا اور وزیر اعظم کو پیغام بھیجا کہ وہ فوراً وطن واپس پہنچیں۔
ملک کے تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ
1954 میں پہلا آئین منظور ہوتے ہوتے رہ گیا
24 اکتوبر 1954 کو جب وزیر اعظم وطن واپس پہنچے تو انہیں فوج نے اپنی تحویل میں لے کر سیدھے گورنر جنرل کے سامنے پیش کر دیا۔ وہاں وزیر اعظم نے بے بسی میں دستور ساز اسمبلی توڑنے اور دوبارہ وزیر اعظم بننے کے احکامات پر دستخط کر دیے۔ یہ وہ وقت تھا جب دستور ساز اسمبلی آئین کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی سفارشات منظور کر چکی تھی اور صرف چار روز بعد یعنی 28 اکتوبر 1954 کو ملک کے پہلے آئین کا مسودہ ایوان میں پیش کیا جانے والا تھا۔ حامد خان اپنی کتاب ’’پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس آئین کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آبادی کے فرق کا تنازع طے کر دیا گیا تھا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 55 فیصد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 45 فیصد طے کر دیا گیا تھا۔‘
خواجہ ناظم الدین (درمیان میں) صاحبزادہ لیاقت علی خان (دائیں) اور فیروز خان نون (بائیں) کے ہمراہ
'منصوبے کے مطابق آئین ساز اسمبلی اسی برس دسمبر میں دستور کے مسودے کو حتمی شکل دے کر اس کی منظوری کا فیصلہ کر چکی تھی کہ غلام محمد نے اسمبلی کو تحلیل کر کے دستور کی منظوری کا راستہ بند کر دیا۔ اس طرح ملک کے دونوں حصوں کے درمیان پارلیمان میں نمائندگی کا مشکل مسئلہ جو اس دستور میں حل کر دیا گیا تھا، ایک بار پھر بگاڑ کر مشرقی پاکستان کے حق نمائندگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا گیا اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اسٹیبلشمنٹ مشرقی پاکستان کے حق حکمرانی کو کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اس طرح اس فیصلے نے علیحدگی کا بیج بو دیا'۔
مولوی تمیز الدین کی اسمبلی بحالی مہم
دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیزالدین نے گورنر جنرل کے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کے اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دستور ساز اسمبلی کو بحال کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد 27 مارچ 1955 کو ملک غلام محمد نے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر کے وسیع اختیارات سنبھال لیے اورسندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس محمد منیر کے ساتھ گورنر جنرل غلام محمد کے ذاتی نوعیت کے تعلقات تھے۔ گورنر جنرل غلام محمد، جنرل ایوب خان اور جسٹس محمد منیر آپس میں دوست تھے۔ چنانچہ 10 مئی 1955 کو جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں فیڈرل کورٹ کے مکمل بنچ نے کثرت رائے سے سندھ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جو اس نے دستور ساز اسمبلی کی بحالی کے سلسلے میں سنایا تھا۔
جسٹس محمد منیر (دائیں) اور مولوی تمیز الدین (بائیں)
بعد میں اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر جسٹس محمد منیر نے اپنے اس فیصلے کو حالات کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
ملک غلام محمد کی میراث
یوں ملک غلام محمد جو خود ایک بیوروکریٹ تھے انہوں نے پہلے پاک فوج کو سیاست کے ایوانوں میں داخل کیا اور پھر عدالتی نظام کو اقتدار کے تابع بنانے کی مثال قائم کی۔ خوشامدی سیاست دان اس سارے عمل میں ملک غلام محمد، ایوب خان اور جسٹس منیر کے گٹھ جوڑ میں شامل رہے اور اس طرح ان چاروں طبقوں نے مل کر ایک مضبوط گروہ تشکیل دیا جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں آگے چل کر 1958 میں فوج پہلی مرتبہ مارشل لاء لگا کر براہ راست اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئی۔ ملکی پالیسیوں میں مشرقی پاکستان کے مسائل کو مسلسل نظرانداز کرنے کے باعث 1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ اسی اقتداری ہوس نے آگے چل کر ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھا دیا اور آج تک اگر ملک اپنے لیے کوئی واضح سمت متعین نہیں کر پایا تو اس کی سب سے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ ہی کی کوتاہ نظری ہے۔
حوالہ جات:
'شہاب نامہ' از قدرت اللہ شہاب
'کہانی ایک قوم کی' از اکبر ملک
'ایوان صدر میں سولہ سالْ از م۔ب۔خالد
Constitutional and Political History of Pakistan by Hamid Khan