کیا جمہوریت کا فیصلہ کن معرکہ پنجاب کی دھرتی پر لڑا جا سکے گا؟

کیا جمہوریت کا فیصلہ کن معرکہ پنجاب کی دھرتی پر لڑا جا سکے گا؟
اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں متحدہ اپوزیشن کے افطار ڈنر نے جہاں حکومتی حلقوں کو بدحواس کر دیا وہیں اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ بند کمروں میں بنائی گئی "ڈاکٹرائن" اور عوامی مینڈیٹ ہر شب خون مار کر مسند اقتدار پر بٹھائے جانے والے مہرے عوامی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بیحد کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں۔ اس متحدہ اپوزیشن کی یہ بیٹھک نرگسیت پسندی کا شکار تحریک انصاف کی حکومت کو کس قدر ناگوار گزری ہے اس کا اندازہ وفاقی وزرا اور خود وزیر اعظم عمران خان کے بیانات سے ہو جاتا ہے۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل ہی عمران خان پیپلز پارٹی اور طاہر القادری کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نواز کی حکومت کو گرانے کے درپے تھے۔

اس وقت چونکہ تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی اس لئے اس کا پیپلز پارٹی اور قادری کے ساتھ اتحاد حلال تھا۔ اس سے قبل ججوں کی بحالی کی تحریک میں عمران خان مسلم لیگ نواز کے ساتھ بھی اتحاد کر چکے ییں۔ خیر، اپوزیشن کا مقصد اس میٹنگ سے حکومت اور مقتدر قوتوں پر دباؤ بڑھانا تھا اور اپوزیشن اس مقصد میں کامیاب ہو گئی۔



لیکن مریم نواز اور بلاول بھٹو کے اپنی اپنی جماعتوں کے قائدین کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کے بعد صحافت سے وابستہ کچھ دوستوں نے ہمیشہ کی مانند جمہوری بیانیے کے خلاف پراپیگینڈا پھیلانا شروع کر دیا اور تان آ کر ٹوٹی کہ مریم نواز اور بلاول موروثی سیاست کے داعی ہیں اور اب جب ان کے والدین پاکستان کو لوٹ کر کھا چکے ہیں تو یہ لوگ اس ملک کو لوٹنے آ گئے۔

یہ پراپیگینڈا دراصل گوئبلز کے اس فلسفے سے مستعار لیا گیا ہے کہ جھوٹ کو اس قدر پھیلاؤ کہ وہ سچ لگنے لگے اس لئے سیاستدانوں کے خلاف ہر دم اس پراپیگینڈے کو استعمال کیا جاتا ہے اور مطالعے یا تحقیق سے عاری اذہان یا پھر نسیم حجازی کی تاریخ کو سچ ماننے والے افراد اس پر من و عن ایمان لانا فرض سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات بیحد سادہ سی ہے کہ اگر محض دولت کے دم پر ہی کسی کو عوامی رہنما بنایا جا سکتا تو پھر ملک ریاض یا میاں منشا سے زیادہ دولت کسی کے پاس نہیں ہے لیکن وہ اپنے بچوں کو مقبول عوامی رہنما نہیں بنا سکتے۔

عوام جس کو پسند کرتی ہے اسے رہنما ماننا ہڑتا ہے۔ اگر عوام نے حمزہ شہباز کے بجائے مریم نواز کو رہنما تسلیم کیا ہے اور پیپلز پارٹی میں بلاول کو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے تو اسے جمہوریت کہتے ہیں، جہاں جمہور خود اپنے رہنماؤں کا انتخاب کرتی ہے۔

https://twitter.com/ShireenMazari1/status/1130148484726890496

بہت سے نام نہاد پڑھے لکھے اذہان یہ سوچتے ہیں کہ بلاول یا مریم کو پسند کرنے والے یا تو پسماندگی کا شکار ہیں یا جہالت کا، اس لئے انہیں رہنما تسلیم کر لیتے ہیں۔ اب ان پڑھے لکھے حضرات کو کون سمجھائے کہ عوام کبھی بھی زبردستی کسی کو رہنما تسلیم نہیں کرتے اور اس کا ثبوت ایوب خان کی کنونشنل لیگ اور مشرف کی بنائی گئی قاف لیگ کے تاریخ کے اوراق میں گم ہونے کی صورت میں باآسانی مل جاتا ہے۔

موروثی سیاست تو امریکہ میں بھی موجود ہے جہاں بش اور کلنٹن فیملی اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ ویسے بھی اگر کوئی طرم خان یہ سمجھتا ہے کہ سیاست انتہائی آسان چیز ہے اور اس میں محض مال بنانے کے لئے آیا جاتا ہے تو اسے ایک مرتبہ اپنے گلی محلے سے ایک کونسلر کا الیکشن لڑ کر دیکھ لینا چاہیے تاکہ اسے سمجھ آ سکے کہ عوام کی نمائندگی کرنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کس قدر پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔



رہی بات کرپشن کی تو گذشتہ ساٹھ برسوں سے سیاستدانوں کی کرپشن کے الف لیلوی قصے نام اور کردار بدل کر پیش کیے جاتے رہے ہیں لیکن نہ تو مقبول عوامی رہنماوں کی حمایت میں کوئی کمی آ پائی اور نہ ہی ان رہنماؤں کے ووٹ بنک نے ان قصوں پر یقین کیا۔ اب پانامہ کا کیس بنا کر اقامے پر سزا سنائی جائے تو پھر کون انصاف پر یقین کرے گا؟

یہی وجہ ہے کہ انتخابات کو ہمیشہ چرایا گیا اور ووٹ چوری کر کے مہروں کو زبردستی عوام پر مسلط کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی کارکردگی سندھ میں تسلی بخش نہیں رہی لیکن سندھ میں عوام کے پاس اس کا متبادل موجود نہیں ہے، اس لئے وہاں کے باسی پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ ضیاالحق نے کراچی میں مہاجر قومی مومنٹ اور اندرون سندھ میں پیر پگاڑا اور ممتاز بھٹو کو پیپلز پارٹی کا متبادل بنانے کی کوشش کی اور بعد میں مشرف اور دیگر نے بھی اس عمل کو جاری رکھا لیکن چونکہ یہ متبادل قیادت مصنوعی تھی اور راولپنڈی کے گملوں سے نکل کر خود سے نمو پانے کی صلاحیت سے محروم تھی اس لئے عوام نے بار بار اسے مسترد کیا۔

اگر جمہوری عمل میں رخنے نہ ڈالے جاتے اور مہرے مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جاتی تو سندھ میں شاید حقیقت میں پیپلز پارٹی کو ٹکر دینے والی اصلی عوامی قیادت جنم لے سکتی تھی۔ اسی طرح جنرل جیلانی اور ضیاالحق کی گود میں پروان چڑھے نواز شریف نے جلد ہی اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا کہ سیاسی بقا کے لئے عوام میں جڑیں رکھنا ناگزیر ہے لہٰذا 1993 میں اس نے مقتدر قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اس کے بعد بارہا اقتدار سے تو نکالا جاتا رہا لیکن اس کو اور اس کی جماعت کو پنجاب کے عوام کی تائید سے کوئی بھی محروم نہ کرنے پایا۔



آج بھی اگر غیر جانبدارانہ انتضابات منعقد ہوں تو مسلم لیگ نواز کو دو تہائی اکثریت لینے سے کوئی قوت نہیں روک سکتی۔ اسے جمہور کی طاقت کہتے ہیں اور یہ طاقت عوامی تائید اور اصل حکمرانوں کے آگے سربسجود نہ ہو کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

اپوزیشن کی اس میٹنگ میں مسلم لیگ نواز کے وفد کی قیادت مریم نواز نے کی اور انہوں نے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو بھی دہرایا جس سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اب مسلم لیگ نواز اور اس کے بیانیے کی کمان مریم نواز کے ہاتھ میں ہے اور اس بیانیے کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کی سرزمین پر جلد یا بدیر جمہوریت اور آمریت کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ضرور ہو گا۔

https://twitter.com/MNAShakila/status/1130753435291275267

مریم نواز اگر اپنی جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کو اپنے ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کے مطابق استوار کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو پنجاب سے پہلی مرتبہ جمہوریت کا فیصلہ کن معرکہ لڑا اور جیتا جائے گا۔ کیا وہ اور ان کی جماعت اس راہ پر ثابت قدم رہ پائیں گے یہ بذات خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اس راہ پر چلنے کا مطلب قربانیاں دینے کے ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز ہے۔

اپوزیشن کی اس میٹنگ سے اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن مسلم لیگ نواز کے بیانیے اور اس کی سیاست میں پھر سے جان پڑ گئی ہے۔ اگر مسلم لیگ نواز نے اس مقبولیت کو ڈیل کے لئے استعمال نہ کیا تو پنجاب کی دھرتی اپنے بہت سے گناہوں کا کفارہ ادا کر کے جمہوریت کے کاروان کی قیادت کرے گی۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔