کرونا کی آڑ میں حکومت کا الو سیدھا : کرونا کے لئے مختص رقم سے 10 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں دینے کا فیصلہ

کرونا کی آڑ میں حکومت کا الو سیدھا : کرونا کے لئے مختص رقم سے 10 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں دینے کا فیصلہ
 وزیر اعظم عمران خان جو کہ آج سے تقریبا ایک ماہ قبل ٹیلی تھون کا دربار سجا کر کرونا سے لڑنے کے لئے عوام سے پیسے اکھٹے کر رہے تھے  اب ان کی ہی حکومت نے کرونا کے لئے مختص فنڈز میں سے 10 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
کرونا کے لئے مختص فنڈ سے جن قرضوں کی ادائیگی کی جا رہی ہے ان میں وہ قرضے شامل ہیں جو کہ سرکلر ڈیٹ یا بجلی بنانے کی مدد میں جمع ہونے والے گردشی قرضے کو اتارنے کے لئے لیا گیا تھا۔
ویسے تو خبریں بنوانے کے ماہر وزیر اعظم کی جانب سے ایسے بیانات آتے رہتے ہیں جن میں اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وزیر اعظم ہر صورت میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران معاشی بوجھ سہتے غریبوں کے لئے بجلی سستی کرنا چاہتے ہیں تاہم اب یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ یہ بجلی سستی ہونے کی بجائے طویل المدت دورانیئے میں مزید مہنگی ہوجائے گی۔ دوسری جانب پاک چین اقتصادی راہداری میں سپیشل اکنامک زونز کے سپیشل پیکج کی منظوری روک دی گئی ہے۔ یہ منظوری پچھلے پانچ سال سے رکی ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے سی پیک کی فنڈنگ میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ موڈیز کی جانب سے پاکستانی نجی قرض کے حوالے سے ڈیفالٹ ہونے کے شبے کے تحت جاری کردہ ملک کی نئی کریڈٹ ریٹنگ کے بعد مشیر خزانہ نے بیان دیا کہ پاکستان اپنے کمرشل قرضوں میں کسی قسم کی کوئی چھوٹ نہیں لے گا۔ جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ کرونا ریلیف فنڈ کو اگلے 6 ماہ تک پاکستانی توانائی سکوک 2 کتحت منافع دینے کے لئے درکار رقم کے فوری خلا کو پر کرنے کے انتظام کے تحت استعمال میں لایا جائے۔ جبکہ اس دوران نیپرا قوانین میں تبدیلی کرکے انرجی سیکٹر کے قرضوں اور سکوک بانڈز کے سود کا معاشی دباو صارفین پر منتقل کیا جائے گا۔ یوں بجائے اس کے کہ غریب بجلی صارفین کو ریلیف دیا جائے الٹا انہیں مزید نچوڑا جائے گا۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دیئے جانے والے کرونا ریلیف پیکج کی حقیقت پر تو پہلے سے ہی انگلیاں اٹھ چکی ہیں کیونکہ پیکج کے تحت دکھائی جانے والی 1200 ارب کی رقم میں گندم خریداری کے لئے معمول کے مطابق 280 ارب سے زائد رقم بھی شامل ہے۔جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا معمول کا بجٹ بھی کرونا ریلیف پیکج میں ظاہر کر دیا گیا ہے۔

ساتھ ہی تاجروں اور کاروباری شعبے کو ٹیکس ریٹرنز میں اربوں روپے جو کہ پہلے سے ہی ادا کرنا طے تھا وہ بھی اسی کھاتے میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ اور یوں ایک ضخیم رقم دیکھنے اور بتانے کے لئے قائم کر دی گئی ہے۔ اب جبکہ کرونا کے لئے پیکج کرونا سے بچاؤ کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں استعمال سامنے آرہا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستانی عوام کے ساتھ ڈیم فنڈ کی طرح ایک بار پھر نوسر بازی کی واردات تو نہیں ہوگئی۔